اوورسیز پاکستانیوں کے پہلے سالانہ کنونشن میں کم وبیش 1200سے زائد پاکستانیوں کی شرکت بجا طور حکومت کی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، وزیراعظم اور آرمی چیف نے جس طرح سے دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کی ملک بارے خدمات اور ان کی وطن کی مٹی سے والہانہ وابستگی کو سراہا یقینا وہ دوسرے ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کےلئے کسی اعزاز سے کم نہیں ، اوور سیز پاکستانیوں کے کنونشن کے بارے میں یہ رائے بھی قائم کی جاسکتی ہے کہ یہ دراصل کئی دہائیوں سے زیر التوا مسائل کو تیزی سے حل کرنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا ، مذکورہ تقریب میں محض وزیر اعظم محمد شہبازشریف ، آرمی چیف جنرل عا صم منیر ہی شریک نہ تھے بلکہ وفاقی وصوبائی وزرا سمیت اراکین اسمبلی کے علاوہ مختلف شبعہ ہائے سے وابستہ افراد بھی بڑی تعداد میں موجود رہے ، اس موقع پر اوورسیز پاکستانی فاونڈیشن کے چیرمین سید قمر سید قمر رضا کا کہنا تھا کہ 160ممالک میں ایک کروڈ 20 لاکھ پاکستانی نہ صرف اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے کوشاں ہیں بلکہ وہ دور رہ کر پاکستان کی تعمیر وترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے عزم پر بھی قائم ہیں،یقینا مذکورہ کنونشن نے اس تاثر کی نفی کردی کہ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل سے لاتعلق ہے ، ہم جانتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی مخالفین بالخصوص تحریک انصاف سے وابستہ افراد یہ دہائی دیتے نہیں تھکتے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی حکومت کی بیرون ملک میں ہرگز کوئی پذائری نہیں، مگر آج اورسیز پاکستانیوں کے اعتماد کا بڑا ثبوت ان کی جانب سے قابل زکر تعداد میں ترسیلات زر بھیجنا ہے جو بلاشبہ شبہازشریف حکومت پر بھرپور اعتماد کا ثبوت ہے ،اس میں دوآرا نہیں کہ ماضی میں بھی مختلف اداوار میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مشکلات کے ازالہ کےلئے حکومتی اعلانات ہوتے رہے مگر حالیہ پیش رفت کی خاص بات یہ رہی کہ سیاسی اور عسکری قیادت نے ہم آواز ہوکر مسائل کے حل کےلئے مشترکہ کاوشیں کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ، وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے اس اعلان کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے خوب پذائری ملی کہ اورسیز پاکستانیوں کےلئے خصوصی عدالتیں قائم کردی گی ہیں ، اس ضمن میں واقفان حال کا موقف ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی یہ شکایت طویل عرصے سے چلی آرہی تھی کہ جائیداد کی خریدوفروخت سمیت کئی دیگر قانونی مسائل ان کےلئے ازیت کا باعث ہیں ان کے بقول جب جب انھوں نے نظام انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا تو یا کبھی تو ان کی بروقت داد رسی نہ ہوئی یا پھر سرے سے کسی نہ ان کی بات ہی نہ سنی ، اب وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کےلئے الگ عدالتیں بجا طور پر ان کی مشکلات میں خاطر خواہ کمی لانے کا باعث بنیں گیں ، قابل تحسین یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کا محض اعلان ہی نہیں کیا بلکہ عملی قدم بھی اٹھاتے ہوئے اسلام آباد سمیت بلوچستان اور پنجاب میں خصوصی عدالتوں کے قیام کا عمل میں آچکا، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں شاید اسی پس منظر میں کہا کہ ایک کروڈ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں لہذا ان کی داد رسی کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ، اوورسیز پاکستانیوں کےکنونشن سے آرمی چیف کا خطاب بھی کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل رہا ہے ، مثلاً سپہ سالار نے خبیر پختوانخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کا عزم پوری قوت کے ساتھ دہرایا ، سپہ سالار کا اس موقع پر کہنا تھا کہ برین ڈرین کا بیانیہ درست نہیں بلکہ دراصل یہ برین گین ہے ،اوورسیز پاکستانی دیگر ملکوں میں محض پاکستان کے سفیر نہیں بلکہ عملا پاکستان کےلئے روشنی کا کام کرتے ہیں، ان کے بقول نئی نسل کو دو قومی نظریہ اور پاکستان کے قیام کی کہانی بارے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ، سپہ سالار نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کام کرنے والی ریاست کا ہارڈ اسٹیٹ کہا جاتا ہے،”اس میں دوآرا نہیں کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی جانب سے جس باوقار انداز میں اورسیز پاکستانیون کی ملک کےلئے خدمات کا اعتراف کیا گیا وہ بے مثال ہے ، وطن عزیز ان دنوں جس قسم کے مسائل سےدوچار ہے اس کا بجا طور پر تقاضا ہے کہ ہم قومی سطح پر اتفاق واتحاد کو فروغ دیں ، پاکستان اسی صورت میں تعمیر وترقی کی منازل طے کرسکتا ہے جب ہم اپنی صفوں میں اتفاق واتحاد کی موجودگی کو یقینی بنائیں ، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندرونی مسائل کے حل کیلئے دنیا کی طرف دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا ہوگی ، جنرل عاصم منیر کی جانب سے جس طرح دوٹوک انداز میں ہارڈ اسٹیٹ بارے پیدا ہونے والے ابہام کو دورکیا بلاشبہ وہ قابل تحسین ہے ، ہم سب باخوبی جانتے ہیں کہ ایک جمہوری اور اعتدال پسند پاکستان ہی کروڈوں پاکستانیوں کی زندگیاں میں امن ، سکون اور خوشحالی لانے کا باعث بن سکتا ہے ، بیرون ملک پاکستانی بھی اسی صورت اپنا سر فخر سے بلند کرسکتے ہیں جب مملکت خداداد میں جمہوریت کا پودا تناور مستقبل قریب میں تناور درخت کی شکل اختیار کرجائے ۔