کالم

بھارت میں اسلامو فوبیاکاراج

یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ 2001 کے آخر میں اس وقت کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل بھارتی گجرات میں بلدیاتی چناﺅ بری طرح ہار گئے جس کے ردعمل میں وجپائی سرکار نے کیشو بھائی پٹیل کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر مودی کو عارضی طور پر وزیر اعلیٰ بنا دیا اور اس کے بعد مودی 13سال تک نہ صرف وزیر اعلیٰ رہے بلکہ اپنی مسلم دشمنی کی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل تیسری بار بھارت کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہو چکے ہےں ۔اسی تناظر میںاب بھارتی گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ شنکر سن واگھیلہ کایہ انکشاف بھی سامنے آچکا ہے کہ سال 2002 میں گجرات فسادات ایک سوچی سمجھی سازش تھی جو بی جے پی کو انتخابات جتوانے کے لیے کی گئی۔ ”یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موصوف 1996سے 1997 تک بھارتی گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے تھے اس کے علاوہ وہ کئی بار لوک سبھا اور رجیہ سبھا کے رکن بھی رہ چکے ہےں۔ “ان کے مطابق گودھرا میں ٹرین کا ڈبہ جلا کر یہ پیغام دیا گیا کہ بی جے پی نہیں ہوگی تو مسلمان ہندو¶ں پر حاوی ہوجائیں گے اس لےے مسلمانوں کو نشانہ بنا کر بی جے پی اور نریندر مودی نے بدترین حیوانیت کا ثبوت دیااوراس واقعہ کی آڑ میں مسلمان حاملہ خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ شنکر سن واگھیلہ نے مزید کہا کہ اگر 2002فسادات نہ ہوتے تو بی جے پی کبھی بھی گجرات میں دوبارہ الیکشن نہیں جیت سکتی تھی۔ انہوںنے اس حوالے سے سوال اٹھایا کہ کارسیوکوں کی ایک جگہ پر موجودگی اور آنے جانے کا وقت مسلمانوں کو کیسے پتہ ہوسکتا تھا۔کارسیوکوں کا ڈبہ اندر سے جلایا گیا نہ کے باہر سے جس سے ثابت ہوتا ہے یہ اشتعال انگیزی باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی اورگجرات کے ان سب فسادات کا مقصد مودی کو دوبارہ حکومت میں لاکر اقتدار دلوانا تھا۔دوسری جانب سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ یہ کوئی راز کی بات نہےں کہ دنیا کے دیگر کئی حصوں کی مانند بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمان شدید مشکلات کا شکار ہےں اور 9/11 کے بعد سے دنیا بھر کے مسلمان تختہ مشق بنے ہوئے ہےں۔اسی تناظر میں فروری 2002 کو بھارتی صوبے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل شروع ہو ا تھا جو تقریباً تین ماہ تک جاری رہا۔ اس وحشیانہ مہم کے دوران تقریباً 3 ہزار نہتے مسلمان زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کر دیئے گئے تھے۔ ایک ہزار سے زائد لاپتہ ہو گئے جبکہ 3500 شدید زخمی ہو کر ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو گئے۔ ہزاروں مکانات اور دکانیں جلا دی گئیں۔ اس نسل کشی کے دوران ڈیڑھ لاکھ افراد بے گھر ہوئے جن کی اکثریت تاحال سسک سسک کے زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ اس دوران 230 مسجدیں اور د رگاہیں شہید کی گئیں جن میں تاریخی مسجد ”محافظ خان“ اور ”ولی گجراتی“ اور ”ملک یامین“ کے مزار بھی شامل تھے۔
واضح رہے کہ 27 فروری 2002 کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ”سابر متی ایکسپریس“ کی آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا۔ جنونی ہندو گروہوں نے اس قدرتی سانحے کا الزام مسلمانوں پر دھر دیا اور یوں گجرات کے طول و عرض میں مسلمان اقلیت کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔آغاز میں احمد آباد کے علاقے ”گل برگ سوسائٹی“ میں لوک سبھا کے رکن ”احسان جعفری“ اور ان کے بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ”نرودہ پاٹیا“ اور دوسرے علاقوں میں بھی یہ سلسلہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ اکثر غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ”گودھرا“ میں ”سابر متی“ ایکسپریس ٹرین کی آتش زدگی خود مسافروں کی کسی لا پرواہی کا نتیجہ تھی۔ دہلی سرکار کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی (جس کی سربراہی گجرات ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ”امیش چندر بینرجی“ نے کی) اور جسٹس ناناوتی اور جسٹس شاہ کی سربراہی والے عدالتی کمیشن نے بھی اس سانحے کے لئے ٹرین میں سوار مسافروں اور مقامی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر” سیکولر“ بھارت میں ہزاروں بے قصور انسانوں کو محض مسلمان ہونے کے جرم میں زندہ جلا دیا گیا۔انسان دوست بھارتی اور مغربی دانشوروں کی اکثریت (جن میں ”تیستا سیتل واڑ“، ”سدھارت رنجن“، ”ارون دتی رائے“، ”یوگندر یادو“، ”راجیو شکلا“ اور ”کرن بیدی“ نمایاں ہیں) نے اس سانحے کی شدت کے ضمن میں کہا کہ آزاد بھارت میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ اس حوالے سے یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی عدلیہ کا کردار بھی بہت سے سوالوں کے جنم دیتا ہے۔ ”سابر متی ایکسپریس“ کی آتش زدگی کے”مبینہ“ جرم میں21 مسلمانوں کو پھانسی سمیت مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں مگر ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی کے گھنا¶نے جرم میں ملوث شاید ہی کسی کو سزا ملی ہے۔ مرحوم احسان جعفری اور ان کے ساتھ پچاس سے زائد معصوم عورتوں اور بچوں سے زندہ رہنے کا حق چھیننے والے مجرم بھی کیفرِ کردار کو نہیں پہنچے تبھی تو 26 دسمبر 2013 کو جب بھارتی سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو تمام الزامات سے بری قرار دیا تو احسان جعفری کی بے آسرا بیوہ بھارتی سپریم کورٹ کے اندر ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ اس کے علاوہ مودی کے حکومت میں آنے کے بعد گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ”بی جے پی“کے سربراہ ”امت شاہ“ کو بھی دسمبر 2014
میں بری کر دیا گیا۔ توقع کی جانی چاہےے دنیا بھر کے انسان دوست حلقے اسلاموفوبیا کے خلاف اپنا انسانی فریضہ نبھاتے ہوئے نہتے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کی جانب عملی اقدامات کرینگے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ امر بھی و¿قابل ذکر ہے کہ 2ماہ قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ انسان دوست حلقوں کی بھرپور نمائندگی کی اور غزہ اور کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کےخلاف بھرپور آواز اٹھائی تھی۔ ایسے میں امید کی جانی چاہےے کہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کی حوصلہ شکنی کےلئے عالمی برادری مثبت کردار ادا کرئے گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے