بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہندو انتہا پسندی کو مزید تقویت دینے کیلئے بی جے پی حکومت نے ”لو جہاد” کے نام پر ایک نیا قانون بنانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اس مقصد کیلئے ایک 7رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی قیادت ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سنجے ورما کر رہے ہیں۔ اس کمیٹی میں خواتین و اطفال بہبود، اقلیتی امور، قانون و عدلیہ، سماجی انصاف، خصوصی امداد اور داخلہ جیسے محکموں کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جاری سرکاری قرارداد کے مطابق، یہ کمیٹی زبردستی مذہب تبدیلی اور لو جہاد سے متعلق شکایات کے حل کیلئے اقدامات تجویز کرے گی اور دیگر ریاستوں کے موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر نئی قانونی سفارشات پیش کرے گی۔ بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع بھیوانی میں دو مسلم خاندانوں پر ہندوتوا کے غنڈوں نے حملہ کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں میں توڑ پھوڑ کرنے بعد نذرآتش کر دیا۔ ہندوتوا کے غنڈوں نے مسلم خاندانوں کے گھروں میں موجود تمام سامان باہر نکال کر پھینک دیا۔ نقاب پوش حملہ آوروں نے ہاتھوں میں ہتھوڑے اٹھا رکھے تھے اور متاثرہ گھروں سے دو موٹرسائیکلیں، ایک ٹی وی، واشنگ مشین اور دیگر قیمتی سامان بھی لوٹ کر لے گئے۔ متاثرہ خاندانوں نے رات کھلے آسمان تلے بے یار ومددگار ایسی حالت میں گزاری کہ کھانے پینے کیلئے بھی کچھ نہ تھا۔ اس تمام صورت حال میں پولیس نے مودی سرکاری سے وفاداری نبھائی اور مظلوم خاندانوں کی مدد کے بجائے خاموشی تماشائی بنی رہی۔ اطلاعات کے مطابق، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب راجستھان سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے مسلم لڑکے سے شادی کی۔ نوبیاہتا جوڑے نے جان سے مارنے کی دھمکیوں کی وجہ سے شادی کے فوری بعد علاقہ چھوڑ گئے تھے۔ بھارت میں لو جہاد کا بیانیہ انتہا پسند ہندو تنظیموں اور بی جے پی کی حکومت کے ذریعے بارہا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مقصد بین المذاہب شادیوں کو روکنا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا ہے۔ اس بار مہاراشٹرا حکومت نے 2022 میں پیش آنیوالے شردھا والکر قتل کیس کو جواز بنا کر ایک نیا ہتھکنڈا تیار کیا ہے۔ اس کیس میں الزام ہے کہ آفتاب پونا والا نامی مسلم نوجوان نے اپنی لو ان پارٹنر شردھا والکر کو قتل کرکے اسکے جسم کے ٹکڑے کئے تھے۔ بی جے پی اس واقعے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کے ہزاروں واقعات ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں اکثریت ہندو ملزمان کی ہوتی ہے۔ مہاراشٹرا حکومت کے اس فیصلے پر بھارتی اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی رہنما سپریہ سولے نے کہا کہ محبت اور شادی ہر فرد کا ذاتی حق ہے۔ حکومت کو بے بنیاد مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے پر کام کرنا چاہئے۔ سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے ابو اعظمی نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی ایک اور کوشش ہے۔ جب 18 سال سے زائد عمر کے افراد اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں، تو پھر یہ مداخلت کیوں؟ کانگریس رہنما حسین دلوائی نے بھی بی جے پی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ زبردستی تبدیلی مذہب کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ جمہوریت میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے۔ یہ فسطائیت پر مبنی ایجنڈا ہے۔جبکہ بی جے پی کے ایم ایل اے منگل لوڈھا نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ شردھا والکر کیس میں کیا ہوا۔ ایسے بہت سے واقعات مہاراشٹرا میں ہو رہے ہیں۔ جب ہم لو جہاد کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپوزیشن کو مسئلہ ہوتا ہے۔ بھارت میں لو جہاد جیسے متنازعہ قوانین کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو دبانا، ان کی آزادی سلب کرنا اور ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے۔بی جے پی حکومت پہلے ہی شہریت ترمیمی قانون اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے اپنے مسلم مخالف عزائم کا اظہار کر چکی ہے۔ اب یہ نیا قانون بین المذاہب تعلقات کو بھی جرم بنانے کی کوشش ہے، جو بھارت کے جمہوری اور سیکولر تشخص کے خلاف ہے۔ بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک سخت گیر ہندو رہنما پرمود موتھلک نے ہندو نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے یا اسے اپنی طرف راغب کرتا ہے تو اس کا انتقام لینے کے لیے وہ دس مسلم لڑکیوں کے ساتھ تعلق بنانے کی کوشش کریں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آنے کے بعد بھی ملک کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پورے ملک میں ہماری لڑکیوں کا لوجہاد کے تحت استحصال کیا جا رہا ہے۔ پیار کے نام پر ہزاروں ہندو لڑکیوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ ہمیں انھیں متنبہ کرنا چاہیے۔یہ ان کی تنظیم شری رام سینا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو لو جہاد یعنی مسلم لڑکوں کی ہندو لڑکی سے شادی کی ‘لعنت’ کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہم لو جہاد کے سبب سینکڑوں لڑکیاں کھو رہے ہیں۔ باگل کوٹ علاقے میں متعدد ہندو خواتین لو جہاد کا شکار بن رہی ہیں۔بی جے پی نے ہندو نوجوانوں سے کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو ملازمت اور قانونی تحفظ فراہم کریں گے جو مسلم لڑکیوں کو ورغلا کر ان کی زندگی تباہ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ لو جہاد کیخلاف جوابی کارروائی ہے۔ ‘لو جہاد’ کی اصطلاح ہندو گروہوں نے تشکیل دی ہے جو مسلمان مردوں پر شادی کی ترغیب دے کر ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔ مسلم لڑکے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کیلئے اپنے دام میں پھنساتے ہیں۔ واضح رہے کہ صرف رام سینا کے رہنما موتھلک ہی نہیں بلکہ حکمران جماعت بی جے پی کے کئی وزرا اور لیڈر بھی آج کل اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں۔