یہ امر انتہائی قابل ذکر ہے کہ تین روز قبل خضدار میں ٹی ٹی پی ،بی ایل اے اور ان کی بھارتی کٹھ پتلیوں کی ایماءپر معصوم بچوں کو بدترین سفاکی کا نشانہ بنایا گیا جس میں بہت سے بچے اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔ اس وحشیانہ عمل پر ایک جانب یو این سکیورٹی کونسل نے شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے کسی بھی طور قابل قبول قرار دینے سے انکار کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے طول وعرض میں ان بھارتی کٹھ پتلیوں کےخلاف غم و غصے کی شدید لہر پیدا ہو چکی ہے ۔اسی ضمن میں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ جنوبی ایشیا کی سلامتی اور عسکری پالیسیوں پر گہری نظر رکھنے والے بھارتی قومی سلامتی کے ماہر اجے ساہنی کا حالیہ انٹرویو، جو انہوں نے نیوزلانڈری کو دیا، بھارت کے آپریشن سندور کے حوالے سے ایک چشم کشا اور حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔واضح رہے کہ ان کا یہ بیان کہ یہ کارروائیاں ”فوجی طور پر بے اثر” اور ”سیاسی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی” تھیں، نہ صرف بھارتی عسکری بیانیے پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ خطے میں بھارت کی جنگجویانہ پالیسیوں کے پیچھے چھپے سیاسی عزائم کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ آپریشن سندور کو بھارت کی ”فیصلہ کن فتح” کے طور پر پیش کرنا حقائق کے بالکل منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو ان کارروائیوں سے پاکستان کی فوجی حکمتِ عملی پر کوئی فرق پڑا اور نہ ہی یہ دہشت گردی کے خلاف کوئی دیرپا پیغام دے سکیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حملے محض داخلی سیاسی دبا¶ کم کرنے، میڈیا ہائپ پیدا کرنے اور بھارتی یکجہتی کے مصنوعی مظاہرے کے طور پر کیے گئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی ان کارروائیوں کا اصل ہدف عسکری کے بجائے سیاسی تھا، کیونکہ ان کے ذریعے دہلی سرکار نے عوامی توجہ داخلی ناکامیوں، معاشی بحران، اور اقلیتوں کے خلاف پے در پے ریاستی مظالم سے ہٹانے کی ناکام کوشش کی۔مبصرین اس تمام صورتحال کے تناظر میں کہا ہے کہ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان کے اندر نو اہداف کو نشانہ بنایا، لیکن ساہنی کے مطابق، اصل کارروائی صرف چھ لانچ پیڈز پر کی گئی جن میں سے صرف دو ہی فعال تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کے دعوے محض پروپیگنڈہ تھے جنہیں زمینی حقائق کی تائید قطعا حاصل نہیں۔علاوہ ازیں یہ محدود آپریشن کوئی بڑی عسکری کامیابی نہیں بلکہ ایک محدود اور علامتی کارروائی تھی، جسے جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ممتاز بھارتی مبصر ساہنی نے واضح کیا کہ پاکستان نے بھارتی اشتعال انگیزی کا جوابی ردعمل انتہائی ذمہ داری، ضبط اور توازن کے ساتھ دیا اوراس رویے نے نہ صرف ایک بڑے عسکری تصادم کو روکا بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے امکانات کو بھی زندہ رکھا۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستان کی یہی پختہ حکمتِ عملی اسے عالمی برادری کی نظر میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے، جو کشیدگی میں اضافے کے بجائے امن کا راستہ اپنانا چاہتی ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ 2019 میں بھی پاکستان نے بھارتی فضائی حملوں کا م¶ثر جواب دیا تھا جب اس نے ایک بھارتی مگ-21 طیارہ مار گرایا اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کو حراست میں لے لیا تھا اور اس واقعے نے بھارت کے جارحانہ عزائم کو عالمی سطح پر شدید دھچکہ پہنچایا اور اس کے بیانیے کو نقصان پہنچایا تھا۔واضح رہے کہ بھارتی مبصر ساہنی نے بھارتی حکام کے ”زیرو ٹیرراِزم” جیسے نعروں کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف عوام کو وقتی طور پر مطمئن کرنے کےلئے استعمال کیے گئے نعرے تھے جن کا میدانِ عمل میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی پالیسیاں نہ صرف جھوٹے توقعات کو جنم دیتی ہیں بلکہ عملی میدان میں بھارتی ساکھ کو شدید نقصان بھی پہنچاتی ہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اجے ساہنی نے اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی کہ مسئلہ کشمیر بدستور حل طلب ہے۔ ان کے بقول، عسکری کارروائیاں اس مسئلے کو مزید گھمبیر بناتی ہیں اور ایک انسانی المیہ کو جنم دیے سکتی ہےں ۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اگر واقعی خطے میں امن کا خواہاں ہے تو اسے عسکری جارحیت کے بجائے سفارتی، قانونی اور سیاسی راستہ اپنانا ہوگا۔یہ م¶قف پاکستانی نقط نظر کی بھرپور تائید کرتا ہے، جو ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل اور مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کی وکالت کرتا رہا ہے۔ساہنی نے بھارتی حکومت کے اس رویے پر بھی تنقید کی کہ اس نے اپنی عسکری ناکامیوں کو تسلیم نہیں کیا، مثلاً طیارے کے نقصان کو چھپانا اور ناکام کارروائیوں کو کامیابی بنا کر پیش کرنا۔ ان کے مطابق، یہ طرزِ عمل حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے اور شفافیت کے اصولوں سے انحراف ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ رویہ نہ صرف بھارتی عوام بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ ایک ایٹمی ریاست کا ایسے غیر ذمہ دار بیانیے کو اپنانا خطے کی سلامتی کےلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔اجے ساہنی کا یہ انٹرویو بھارت کے اس اسٹریٹجک بیانیے کو بُری طرح جھٹکا دیتا ہے جو وہ آپریشن سندور کو ”گیم چینجر” کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور یہ انکشاف نہ صرف بھارتی عسکری اداروں کے غیر م¶ثر رویے کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ بھارتی حکومت کی سیاسی مکاریوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ اجے ساہنی جیسے ماہرین کی رائے وہ آئینہ ہے جس میں بھارت کو اپنی اصل شکل دیکھنی چاہیے، اور بین الاقوامی برادری کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے ۔