مبصرین کے مطابق یہ امر خاصی تشویش کا حامل ہے کہ 4جنوری 2025 کوبلوچستان دہشتگردی کا ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں مسافر بس بم دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک جبکہ 36 کے قریب زخمی ہوئے ۔ واضح رہے کہ دہشت گرد تنظیم ’بی ایل اے کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے مسافر بس پر حملے کی ذمے داری قبول کی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنی گئی۔کیچ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس راشد بلوچ نے بتایاکہ تربت واقعے میں ریمورٹ کنڑول بم کا استعمال کیا گیا تھا۔مبصرین کے مطابق یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی خود کو بلوچ عوام کے حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کرتی ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ تنظیم ان ہی معصوم بلوچوں کی قاتل ہے جن کے حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرتی ہے اور بی ایل اے کے کردار اور اس کی کارروائیوں نے نہ صرف بلوچ عوام کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ پورے پاکستان میں افراتفری اور بدامنی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔بی ایل اے کے متعلق واضح شواہد موجود ہیں کہ یہ تنظیم بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرتی ہے خصوصاً بھارتی خفیہ ایجنسی “ RAW ” ، اسرائیلی ایجنسی“ موساد ” اور دیگر مغربی قوتیں اس تنظیم کو فنڈنگ اور ہتھیار فراہم کرتی ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور بلوچستان کو ترقی کے راستے سے ہٹانا ہے۔ اس ضمن میں بی ایل اے کے دہشتگردانہ اقدامات کو سمجھنے کےلئے ہمیں اس کے مالی اور عسکری سپورٹ کے ذرائع پر غور کرنا ہوگا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بھارت اور مغربی ممالک کی دلچسپی بلوچستان کی معدنی وسائل پر قابض ہونے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی ایل اے کو ایک پراکسی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور بی ایل اے نے مکتی باہنی جیسی دہشتگرد حکمت عملی اپنائی ہے، جو 1971 میں مشرقی پاکستان میں استعمال کی گئی تھی۔یاد رہے کہ مکتی باہنی نے نہ صرف معصوم شہریوں کا قتل عام کیا تھا بلکہ پروپیگنڈے کے ذریعے نفرت کو فروغ بھی دیا تھا۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بی ایل اے بھی اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے بلوچ عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکانے اور دہشتگردانہ کارروائیوں کے ذریعے خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران بی ایل اے کے حملوں میں 100 سے زائد معصوم بلوچ شہری شہید ہو چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے معمول کی زندگی گزار رہے تھے لیکن بی ایل اے کے حملوں کی زد میں آ گئے۔9 نومبر 2024 کو ہونے والا خودکش حملہ اس تنظیم کی سفاکیت کی ایک اور مثال تھا ۔یاد رہے کہ اس حملے میں 10 معصوم بلوچ شہری شہید ہوئے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی ایل اے نہ تو بلوچ عوام کے حقوق کی محافظ ہے اور نہ ہی ان کی زندگیوں کی قدر کرتی ہے بلکہ بی ایل اے کے اقدامات نے واضح کر دیا ہے کہ یہ تنظیم بلوچ عوام کے حقوق کی لڑائی کے بجائے بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے ۔ مبصرین کے مطابق قابل ذکر امر یہ ہے کہ بلوچ عوام کی غربت، بیروزگاری، اور پسماندگی جیسے مسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی ایل اے نے انہیں اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس تنظیم کی دہشتگردانہ کارروائیوں نے بلوچ عوام کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔یہ امر توجہ طلب ہے کہ بی ایل اے کی کارروائیوں میں خودکش حملے اور دیگر دہشتگردانہ اقدامات شامل ہیں، جو کسی بھی طرح سے حقوق کی جدوجہد نہیں کہلا سکتے۔ یہ تنظیم معصوم انسانوں کی زندگیاں لے کر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس ضمن میں9 نومبر 2024 کے خودکش حملے کی مثال ایک واضح ثبوت ہے کہ بی ایل اے کا مقصد صرف اور صرف تباہی پھیلانا ہے۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ بات پیش نظر رہنی چاہےے کہ یہ تنظیم معصوم بچوں، خواتین، اور عام شہریوں کو نشانہ بناتی ہے، جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔بی ایل اے کی فنڈنگ اور اسلحہ فراہم کرنے میں بیرونی طاقتوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور بھارت بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے کےلئے بی ایل اے کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس امر کا کھلا اعتراف مودی نے لال قلعہ میں اپنی 2016کی تقریر میں اعلانیہ طور پر کیا تھا۔یاد رہے کہRAW کا مقصد نہ صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ناکام بنانا بھی ہے۔یہا ں یہ امر خصوصی توجہ حامل ہے کہ مغربی طاقتیں بھی بلوچستان کے معدنی وسائل پر قابض ہونے کے لیے بی ایل اے کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔بلوچ عوام کے مسائل کو حل کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے لیکن بی ایل اے جیسے دہشتگرد عناصر ان مسائل کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچ عوام کے اعتماد کو بحال کرے اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر ئے کیوں کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے، تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع فراہم کر کے ہی بی ایل اے کے پروپیگنڈے کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی سیکیورٹی فورسز کو بی ایل اے کےخلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے تاکہ یہ تنظیم اپنے دہشتگردانہ مقاصد میںکامیاب نہ ہوسکے۔ بی ایل اے کا دعویٰ کہ وہ بلوچ عوام کے حقوق کےلئے کام کر رہی ہے، محض ایک دھوکہ ہے اور حقیقت میں اس تنظیم نے معصوم بلوچوں کی جانیں لے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ درحقیقت ان کے بدترین دشمن ہیں۔ قابل تشویش امر یہ ہے کہ بی ایل اے کے اقدامات اور بیرونی طاقتوں کے ساتھ اس کے تعلقات نے اسے بلوچ عوام کیلئے ایک خطرہ بنا دیاہے اور ایسے میں ریاست اور عوام کو مل کر اس تنظیم کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانا ہو گا اور بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہو گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم دشمن کے ان عزائم کو سمجھیں اور متحد ہو کر ان کا مقابلہ کریں۔