اکتوبر 2015 میں انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام انٹرنیشنل اردو کانفرنس کے موقع پر پاکستانی سفارت خانے کے انٹرنیشنل اسٹڈی گروپ کی طرف سے کانفرنس کے پاکستانی شرکا کے اعزاز میں ایک استقبالیے اور ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہاں پاکستانی مہمانوں کے سب سے دراز قد ، خوش لباس ، بارعب اور حیران کن اعتماد کے حامل میزبان کا نام ڈاکٹر احمد بختیار اشرف تھا۔استقبالیہ تقریب میں انہوں نے پاکستانی سفارت خانے کے انٹرنیشنل اسٹڈی گروپ کی سالانہ کارکردگی رپورٹ بھی پیش کی تھی۔تقریب میں انکی بے پایاں مسرت اور سرشاری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی مہمانوں میں انکے براہ راست شاگردوں کی اچھی خاصی تعداد شامل تھی ۔ میں ڈاکٹر اے بی اشرف صاحب کے علمی مفاخر اور نظریاتی فتوحات سے واقف و آگاہ اور معترف تو تھا ، لیکن ان سے پہلی بار براہِ راست ملاقات کا شرف مجھے اس تقریب میں حاصل ہوا۔ وہ حد درجہ اپنائیت اور محبت سے ملے ،اور وہ جو بڑے لوگوں کا شیوہ ہوا کرتا ہے ،انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تقریب میں میرے اول فول خطاب کی تعریف بھی کی۔ان کی مسکراہٹ سی ٹی اسکین مشین کی طرح مخاطب کے دل و دماغ کے سارے احوال کا نقشہ کھینچ کر محفوظ کر لیتی تھی۔ملتان کو اگر شہر اولیا کہا جاتا ہے تو یقینی طور پر اس سے ایک اشارہ ڈاکٹر احمد بختیار اشرف جیسے صاحب کرامت بزرگ کی طرف بھی ضرور ہوتا ہوگا۔یہ کرامت کیا کم ہے کہ انہوں نے ملتان جیسے قدیم اور مزارات میں محصور شہر کی علمی فضا کو جہالت و قدامت کی تاریکی اور ضعیف روایات کی اسیری سے بچا کر عقل و شعور کی روشنی سے منور کر دیا۔ کچھ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی جامعات میں بہاو¿ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا شعبہ اردو روشن خیالی اور علمی آزاد روی میں اپنی مثال آپ رہا ہے اور ہے ۔ یہی روشن خیالی ، آزادی سے محبت اور معاشرتی منافقت سے بے زاری انہیں جمہوریہ ترکیہ کی طرف متوجہ اور مائل کرنے کا باعث بنی۔ڈاکٹر اے بی اشرف صاحب نے واقعتا ترکیہ کو اپنا دوسرا گھر بنا رکھا تھا۔انقرہ ان کا عشق تھا اور وہ انقرہ کو اپنی جائے قرار بنا کر اپنے دعویٰ عشق کی سند فراہم کرتے رہتے تھے۔ان کی موجودگی اور محفل میں انکے ترک دوست، ہم کار اور شاگرد خود کو اردو دنیا کا اہم اور بامعنی حصہ خیال کیا کرتے تھے۔ترکیہ کا روشن خیال اور پر جمال معاشرہ ان کے قلب و ذہن کے بہت قریب تھا۔وہ سیکولر جمہوریت کے قائل اور انسانی آزادی اور انسانی مساوات پر یقین رکھنے والے دانشور تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کی طرح ہمارے ترک دوستوں کو بھی ڈاکٹر اے بی اشرف کے چلے جانے نے بےحد آزردہ اور غمگین کر دیا ہے۔ پاکستان ، پاکستانیوں اور اردو زبان و ادب سے محبت کرنےوالے ہمارے ترک دوستوں میں سے ایک عزیز دوست ڈاکٹر جلال سوئیدان بھی ڈاکٹر اے بی اشرف کی رحلت پر غم زدہ اور اداس ہیں ۔ڈاکٹر جلال سوئیدان ڈاکٹر اے بی اشرف صاحب کو یاد کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ”مرحوم استادِ محترم سے میری واقفیت ستمبر 1988 میں ہوئی تھی، جب میں انقرہ یونیورسٹی سے بی اے مکمل کر کے مزید تعلیم کےلئے پاکستان جانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ وہ بڑی شفقت سے پیش آئے ، جو کہ ان کا معمول تھا، اور نہ صرف پاکستان کے رہن سہن اور وہاں پر اردو تعلیم و تدریس کے بارے میں مفید معلومات فراہم کیں، بلکہ یونیورسٹی اورئینٹل کالج کے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا صاحب کے نام ایک خط بھی لکھ کر دیا، تاکہ وہ میرے داخلے کے سلسلے میں میری مدد فرمائیں۔ اس زمانے سے لے کر تا دم آخر ہمارے مابین استاد و طالب علم، باپ بیٹا، ہم کار اور دوست کی حیثیت سے تعلق جاری رہا۔ ایک استاد اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے وہ نہایت قابل رشک صلاحیتوں کا حامل اور طلبہ کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنے کی شوق سے لبریز شخصیت کا مالک تھے۔ اپنی بات کی ترسیل کی خاطر ایک ہی بات کو بار بار بتانے سے کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ انہیں کبھی غصے کی حالت میں نہیں دیکھا، طلبہ کو کبھی ڈانٹتے نہیں تھے ،ہر وقت شفقتِ پدرانہ سے پیش آتے تھے۔ ڈاکٹر اے بی اشرف صاحب کی اس خوبی نے ان کو ترک طلبہ میں محبوب ترین اور مقبول ترین استاد بنایا دیا تھا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان کا شاگرد بننے کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں پاکستان سے ایم اے کر کے ترکیہ واپس آیا اور انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوا ،اور پھر پی ایچ ڈی کا سلسلہ شروع ہوا تو میں ڈاکٹر صاحب کا شریک کار بننے کےساتھ ساتھ اور شاگرد بھی بن گیا۔ یہ تو سرکاری سند کے حصول کے لیے شاگردی تھی ورنہ میں عمر بھر ان کا شاگرد ہی رہا ہوں۔ پاکستان چیئر کا پانچ سالہ دورانیہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ اسی شعبے سے منسلک رہے اور بدستور اپنا کام جاری رکھا۔درس و تدریس کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی کام کرتے رہے۔میں نے انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بیس سالہ ملازمت کے دوران ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بہت سارے علمی کام مکمل کئے۔ان میں سے اتاترک کے”نطق“کا اردو ترجمہ اور”ترکی اردو لغت“ان میں سر فہرست ہے۔ دراصل ڈاکٹر اے بی اشرف استاد کے منصب سے کبھی ریٹائر نہیں ہوئے۔ وہ آخر دم تک کام کرتے رہے ۔ جب انہیں انقرہ یونیورسٹی سے بوجہ عمر(ترکی کی سرکاری یونیورسٹیوں میں67 کی عمر تک کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے)الگ ہونا پڑا تو وہ پاکستانی سفارت خانے کے انٹرنیشنل اسٹڈی گروپ ،انقرہ سے وابستہ ہو گئے،اور پاکستان ایمبسی سکول میں تعلیم و تدریس کا کام جاری رکھا ۔ ان کا ہمیشہ سے ارادہ تھا کہ وہ ترکیہ میں رہائش جاری رکھیں گے۔ کیوں کہ انہیں ترکی سے عشق تھا اور کہتے تھے کہ پاکستان میں رہنا ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ ان کو تنگ نظری سے نفرت تھی، اسی لیے انہوں نے ترکیہ میں رہنے کو ترجیح دی ۔ ڈاکٹر صاحب جمہوریت پسند اور روشن خیال شخص تھے اور ترکوں کی بھاری اکثریت ایسے ہی ہے۔ اسی لیے انہیں ترکی اور ترکوں سے محبت تھی ، وہ ویسے بھی محبت معمور ایک شخص تھے۔پاکستانی ایمبیسی کے انٹرنیشنل اسڈی گروپ سے وہ کافی عرصے تک منسلک رہے ۔ وہاں پر درس و تدریس سے مشغول رہے۔اس کے علاوہ انہوں نے انقرہ میں ایک پاکستانی سوسائٹی بنا رکھی تھی۔وہ اکثر دوستوں کے اس گروپ ساتھ ملتے رہتے تھے اور یہ ملاقاتیں بڑے تسلسل سے جاری رہتی تھیں وہ بتایا کرتے تھے کہ فلاں روز فلاں احباب کے ساتھ فلاں جگہ پر ہفتہ وار ملاقات کرتے ہیں۔ ملنے جلنے کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ ان کے اکثر ترک دوست وہ لوگ تھے جو ان کے شاگرد اور شریک کار رہے ہوں۔ہر کسی کے ساتھ اچھے مراسم رکھے ہوئے تھے“۔ انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی صدرنشین ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان بھی ڈاکٹر اے بی اشرف کی رحلت پر گریہ کناں تھیں۔ان کےلئے ایک استاد ، ہم کار ،دوست اور رہنما کی جدائی کو سہنا مشکل ہو رہا تھا۔ڈاکٹر اے بی اشرف کے قیام انقرہ سے ہمارے ترک دوستوں کو یوں لگتا تھا جیسے اردو زبان و ادب کا خزانہ خود ترکیہ میں رہائش پذیر ہے ۔یہ ایک دیگر زبان اور اس کے ادب سے محبت کا ایک دیگر انداز اور ثقافت سے رغبت کی ایک منفرد مثال خیال کی جا سکتی ہے۔ ترکیہ میں اردو کے ایک اور استاد ڈاکٹر آئی کت کشمیر نے بتایا تھا کہ چند روز پہلے پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا، انہیں ہسپتال داخل کرایا گیا، جہاں تین روز بعد رات کے وقت وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کے جانے سے پاکستان سے لے کر ترکیہ تک کی اردو دنیا سوگوار ہے۔ڈاکٹر اے بی اشرف ترکیہ سے محبت کرتے تھے، انہوں نے جینے کےلئے اور جانے کےلئے ترکیہ ہی کو پسند کر رکھا تھا ۔ملتان کو علم و عمل اور روشن خیالی کا گڑھ بنانے کے حوالے سے ان کی خدمات اور کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ، وہ اپنے اللہ کے پاس چلے گئے ،پر پاکستان اور ترکیہ میں اپنے سیکڑوں شاگردوں، چاہنے والوں اور دوستوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔