کالم

توانائی کے ذرائع اور معیشت ۔۔۔!

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف گاڑی چلانے والوں کیلئے مسئلہ نہیں بلکہ یہ پورے سماج کو متاثر کرتا ہے۔ کسان، مزدور، صنعت کار، ریڑھی بان، سبزی فروش، طالب علم، مریض اور عام شہری سبھی اس مہنگائی کی زد میں آتے ہیں۔ جب پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، اشیائے خورونوش کی ترسیل سے لے کر کارخانوں کی پیداوار تک ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ یوں ایک چھوٹے سے فیصلے کے اثرات پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔توانائی کے ذرائع وہ بنیادی ستون ہیں جن پر معیشت کی عمارت کھڑی ہے۔ جب ان کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو صنعت کا پہیہ سست پڑ جاتا ہے۔ حکومت کا طریقہ یہ بن چکا ہے کہ وہ معیشت کے تمام بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہے، بجائے اس کے کہ اپنے اخراجات کم کرے، شاہانہ طرزِ زندگی ترک کرے اور فضول خرچیوں کو ختم کرے، پروٹوکول کے لیے ہزاروں گاڑیاں، سیکورٹی کے لیے لاکھوں اہلکار، بڑے بڑے ایوان،
محلات عوام کے خون پسینے کی کمائی سے چلتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر عوام کے دلوں سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف مہنگائی نہیں لاتا بلکہ یہ بے روزگاری کو بھی بڑھاتا ہے۔ جب
صنعت کار بجلی اور گیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث اپنی فیکٹری بند کر دیتا ہے تو مزدور بے روزگار ہو جاتا ہے۔ جب کسان ڈیزل کی مہنگائی سے پریشان ہو کر کھیت خالی چھوڑ دیتا ہے تو کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں اور روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ یوں یہ مسئلہ پورے سماج کو متاثر کرتا ہے۔اگر واقعی معیشت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ کرپشن وہ ناسور ہے جس نے ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ عوام کا دیا ہوا ٹیکس اور بیرون ملک سے لیا گیا قرض حکمرانوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ بڑے بڑے منصوبے محض کاغذوں تک محدود رہتے ہیں یا پھر ان پر اتنا کمیشن کھا لیا جاتا ہے کہ منصوبہ غیر فعال ہو جاتا ہے۔ اگر یہ کرپشن ختم ہو جائے اور وسائل صحیح جگہ استعمال ہوں تو ہمیں کسی بیرونی قرض کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔حکمرانوں کو سب سے پہلے اپنی زندگیوں میں سادگی اختیار کرنی ہوگی۔جب عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو اور حکمرانوں کے دسترخوان پر درجنوں کھانے سجے ہوں تو عوام کے دلوں پر کاری ضرب لگتی ہے۔وی آئی پی پروٹوکول بھی ایک ایسا ناسور ہے جس نے قومی خزانے کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ چند افراد کے لیے سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، سینکڑوں پولیس اہلکار لگائے جاتے ہیں اور درجنوں گاڑیاں قافلے میں شامل کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ عوام کے ٹیکسوں سے چلتا ہے۔ اگر ان اخراجات کو ختم کر دیا جائے اور پروٹوکول پر مکمل پابندی لگا دی جائے تو اربوں
روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ ان بچائے ہوئے وسائل کو اگر تعلیم، صحت اور روزگار پر لگایا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔توانائی کی قیمتوں کو کم سے کم سطح پر لانا بھی اشد ضروری ہے۔ جب توانائی سستی ہوگی تو صنعت کار خوشی سے اپنی فیکٹریاں چلائیں گے، کسان زیادہ پیداوار دے گا، برآمدات بڑھیں گی اور درآمدات پر انحصار کم ہوگا۔ اس سے نہ صرف روزگار بڑھے گا بلکہ ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ اسکے لیے حکومت کو چاہیے کہ پٹرولیم مصنوعات پر عائد تمام غیر ضروری ٹیکس ختم کرے اور صرف وہی ٹیکس رکھے جو بالکل ناگزیر ہوں۔ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ۔یہ ملک زرخیز زمین، قدرتی معدنیات، نوجوان افرادی قوت اور جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے۔ کمی صرف نیت اور ایمانداری کی ہے۔ اگر حکمران اپنی روش بدل لیں اور عوام کیساتھ انصاف کریں تو یہ ملک دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل ہو سکتا ہے لیکن اگر یہی روش جاری رہی، قرضوں پر قرضے لیے گئے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی رہیں اور کرپشن کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو مستقبل میں حالات مزید سنگین ہو جائیں گے۔ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے سب سے پہلے عوام کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔ عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس ان کی فلاح پر خرچ ہوگا، ان کے بچوں کی تعلیم پر لگے گا، ان کے علاج معالجے پر خرچ ہوگا اور ان کے روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔ جب عوام کا اعتماد بحال ہوگا تو وہ خوشی خوشی اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم نے مشکل وقت میں قربانی دی اور حکمرانوں نے سادگی اپنائی تو وہ قوم ترقی کی راہ پر چل پڑی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان تباہ ہو گئے تھے لیکن وہاں کے عوام اور حکمرانوں نے مل کر قربانیاں دیں، کفایت شعاری اپنائی، کرپشن کو ختم کیا اور اپنی صنعت کو مضبوط بنایا۔ آج وہ دونوں ملک دنیا کی طاقتور معیشتوں میں شامل ہیں۔ اگر ہم بھی یہی راستہ اختیار کریں تو ہمارے حالات بدل سکتے ہیں۔ اگر ہم نے ابھی کفایت شعاری اپنائی، کرپشن کو ختم کیا، عوام کو ریلیف دیا اور توانائی کی قیمتوں کو کم کیا تو یقین جانیے عوام کے دل جیتنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ عوام کے دل جیتنا سب سے بڑی طاقت ہے اور یہی طاقت ملک کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جا سکتی ہے ۔یہ ملک اللہ کی دی ہوئی ایک بڑی نعمت ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرنی ہوگی۔ ہم نے ایمانداری، انصاف، کفایت شعاری اور قربانی کو اپنایا تو یہ ملک ترقی کرے گا اور خوشحال ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے