کالم

جناب چیف صاحب کراچی میں یہ کیا ہورہا ہے

لگتا ہے قبرستان ہمارے ہی خاندان کیلئے بنا ہے دو دن پہلے باپ کو دفنا کر آیا ہوں اب میرے نوجوان بیٹے کو نقدی اور موبائل چھیننے والوں نے قتل کردیا ہے کراچی کا ایک تاجر زمین پر پڑا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زار و قطار رو رہا تھا اور اسکے نوجوان بیٹے کی لاش خون میں لت پت سامنے پڑی تھی شب قدر کی رات یہ ایک ویڈیو کسی جاننے والے نے کراچی سے مجھے بھیجی ہے حالیہ جرائم اور قتل و غارت گری کی یہ وارداتیں کون کررہا ہے میں نے جب اس پر اپنے کراچی میں صحافی دوست عرفان ملک سے رائے مانگی تو ان کا کہنا تھا کہ شہر دہشت گردی غنڈہ گردی پولیس گردی بھتہ خوری، حرام خوری اورکرائمز کا گڑھ تو پہلے بھی تھا اب چونکہ مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت اور بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور یہ شہر بالکل لاوارث بن چکا ہے کرائمز میں اضافہ ہوگیا ہے اب ایسی وارداتیں کرنے والے لوٹ مار کے ساتھ ساتھ لوگوں کو گھروں میں محصور کرکے گھس گھس کر قتل بھی کر رہے ہیں یہ وارداتیں مقامی جرائم مافیا کے علاوہ اب کراچی شہر کے قرب و جوار کے علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور اندورن سندھ سے آکر بھی افراد کررہے ہیں۔آصف عباسی کا کہنا تھا کہ ہر روز دہشتگردی قتل،ڈکیتی اغوا برائے تاوان اور لوگوں کے ساتھ زیادتیوں کی خبریں سن سن کر ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم موت کے منڈلاتے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی مرکز یہ شہر جس کی آبادی تقریبا ً22 ملین ہے جو دنیا میں کئی ممالک کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے اس شہر کی حدود جڑواں شہر حیدرآباد تک جاکر ملتی ہیں یہاں پورے پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے لوگ آباد ہیں اکثریت نے تلاش معاش کےلئے اس شہر کا رخ کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے چونکہ یہاں ایک بندرگاہ اسٹاک ایکسچینج اور روز گار کے مواقع بھی کسی حد تک اب بھی موجود ہیں اسی لئے پشتون،افغانی، پنجابی مکرانی، بنگالی بہاری بلوچی سندھی اور مہاجروں کی اکثریت کا یہ شہر مرکز ہے جو مختلف الگ الگ ان گنت کالونیوں اور ایریاز پر محیط ہے کراچی شہر 30 اکتوبر 86 ۔1987 سے پہلے امن کا گوارہ تھا پھر سانحہ سہراب گوٹھ ہوا جب حیدرآباد ایم کیو ایم کے کنونشن میں جانے والوں کا سہراب گوٹھ جو افغان پشتون کا گڑھ ہے وہاں فائرنگ سے جھگڑے کا آغاز ہوا اور پہلے پشتون مہاجر کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا پھر غلام سرور اعوان اور عرفان اللہ مروت نے پنجابی پختون اتحاد بنایا جن کی براہ راست لڑائیاں ایم کیو ایم سے ہونے لگیں پھر ہر طرف لسانی فسادات برپا ہوئے بوری بند لاشیں، عقوبت خانے دہشت گردی ہنگاموں اور کرفیوز نے اس شہر کا امن تباہ کردیا نفرتیں اتنی بڑھ گئیں کہ لسانی صوبائی اور مذہبی فروعی اختلافات کی بنا پر باہم بھائی بھائی کے گلے کاٹنے لگا یہ شہر اور اسکے باشندے جو پیار و محبت سے دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو گلے لگاتے تھے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوگئے بدامنی کرپشن، زمینوں پر قبضے ماری ماری اور بھتہ خوری کا ایک ایسا دور آیا کہ لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہوگئی مالکان نے یا تو ٹھپ کردیا یا پنجاب اور بنگلہ دیش کا رخ کرلیا بیرون ملک اور پورے پاکستان سے سیاحوں نے اس شہر میں آنا بند کردیا حالات اتنے بے قابو ہوگے کہ کراچی کو الگ ملک بنانے کےلئے جناح پور کے نام سے مبینہ سازش تیار کی گئی جسکے بعد میاں نواز شریف کے دور میں 1992میں سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے ملٹری آپریشن کلین اپ شروع کیا، جسکے نتیجے میں الکرم اسکوائر اور دوسری جگہوں سے عقوبت خانے اور اسلحے کے ذخائر برآمد ہوئے یہاں بھارت کی ہمیشہ عملداری رہی کلاشنکوف کلچر اور منشیات فروشی کا یہ شہر آماجگاہ بن گیا تھا اسی دور میں بانی ایم کیو ایم برطانیہ آگئے ملٹری آپریشن کلین اپ بے نظیر بھٹو کے دور 1994 تک جاری رہا ایم کیو ایم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا زور ختم کرنے کےلئے مرحوم جنرل ضیاالحق نے قائم کروائی تھی اسی لئے یہ جماعت ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی منظور نظر رہی ہے ہر حکومت میں اقتدار میں آتی رہی ابتدا میں اس جماعت کو مہاجر قومیت کی بنیاد پر عروج ملا اسی لئے اس کا نام پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھا پھر متحدہ قومی موومنٹ کہلائی آپریشن کلین اپ کے بعد اکتوبر 1999 تک کراچی میں امن رہا لیکن کراچی کا امن تباہ کرنے میں سب پارٹیوں حکومتوں اور اسٹبلشمنٹ کا بھرپور کردار رہا پھر جنرل مشرف کا دور شروع ہوا اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی زیر عتاب آئی تو ایم کیو ایم کا رول ایک دفعہ پھر بڑھ گیا 2018 سے پہلے ایم کیو ایم کی طاقت جو اسٹبلشمنٹ سے اپنے آپ کو تگڑی سمجھنے لگی تھی اور بانی ایم کیو ایم پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کو لندن میں بیٹھ کر للکارنے لگے تھے جو ہمارے اداروں کو ناگوار گزرا تو ایم کیو ایم دو حصوں لندن اور کراچی میں بٹ گئی 2018 میں تحریک انصاف کو کراچی سے مینڈیٹ ملا اور وہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اپنا بنانے میں کامیاب ہوگئی اب کراچی کا مئیر آصولی طور پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا ہونا چاہئے لیکن پیپلزپارٹی نے اپنا مئیر مرتضی وہاب بنا لیا اس شہر میں رینجرز پولیس اور سارے سیکورٹی ادارے موجود ہیں مقامی، صوبائی اور وفاق کی نمائندگی موجود ہے کورکمانڈر کراچی بھی موجود ہے لیکن شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں سب ناکام ہیں یہاں بڑے بڑے تھانوں کے SHOجیسے لیاقت آباد صدر،اونگی ٹاون،ملیر ، کمیاڑی کورنگی ناظم آباد فیصل کالونی، بہادرآباد کے تھانوں میں ایک زمانے میں سفارشی لگتے تھے جو عمل ابھی تک جاری ہے جہاں زیادہ جرائم ہونگے وہاں تھانوں میں کمائی بھی زیادہ ہے پولیس پولیٹیکل انتظامیہ یا حکومت کے تابع اور زیر اثر ہے پولیس کو کریشن سے پاک کرنا
حکومت کا کام ہوتا ہے لیکن یہاں حکومتی ارباب اختیار پکے کے ڈاکو ہیں اور پولیس کچے کے ڈاکوں کا کردار ادا کرتی ہے شہر بھر میں رینجرز کا گشت ہورہا ہے اور چوکیاں بھی قائم ہیں موٹر سائیکلوں کو روک کر چیک کیا جا رہا ہے لیکن مجرموں کو پکڑا نہیں جارہا اس کی وجہ کیا اور ذمہ دار صوبائی سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے جو نہ ہی مسائل کے حل میں مسلسل ناکام رہی ہے بلکہ امن وامان بھی بحال نہیں کر سکتی،کراچی میں میرے دوست معروف ٹی وی فلم اور سٹیچ کے اداکار نزر حسین کا کہنا ہے کہ کراچی کے حالات اتنے خراب ہیں کہ کہ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوتا تھا اب گھروں سے باہر نکلنے سے لوگ گھبراتے ہیں پہلے شہر میں چار چار تھیٹر لگتے تھے اور عید کے بعد ایک ماہ تک جاری رہتے تھے اب آرٹ کونسل میں صرف دو تین دن ڈرامہ ہوتا ہے بے روزگاری مہنگائی اور بدامنی نے کاروبار تباہ کردیئے باہر سے ٹورازم نہ ہونے کے برابر رہ گیا پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کہیں آنا جانا دشوار ہے افسوس یہ ہے کہ ہم باہر سے قرض مانگنے کے لئے مرے جارہے ہیں ہم کراچی میں امن بحال کرکے اس شہر کو ایک دفعہ پھر پاکستان کا معاشی اور تجارتی حب بنا سکتے ہیں اور پاکستان کی معیشت میں یہ شہر دوبارہ ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوسکتا ہے۔ جب کراچی جلتا ہے تو میرا دل بھی جلتا ہے یہ شہر دنیا کے ہر بڑے شہر سے خوبصورت ہے جو ہمارا ملک کی نیک نامی کا باعث بن سکتا لیکن ہم نے لاشوں کی سیاست کو اپنا کاروبار بنا لیاہے افسوس صد افسوس:
مفاہمت نہ سیکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے