کالم

’حسینؓ مجھ سے ہے اورمیں حسینؓ سے ہوں‘

حضرت محمدﷺ نے اپنے نواسے وجنت کے سردار اما م حُسین ؑ کی ذات کے لیے کہاکہ حُسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حُسین ؑ سے ہوں۔اُس وقت سب مسلمانوں نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ آپ نے ایسا کیوںکہا کہ میں حُسین ؑ سے ہوں ۔یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ حُسین مجھ سے ہیں کیونکہ وہ آپ کے نواسہ ہیں مگر یہ بات سمجھنے سے بالاتر تھی کہ آپ ﷺ حُسینؑ سے کیسے ہوئے ۔آپ کو آنے والے وقت کا پہلے ہی سے معلوم تھا کہ کُفر اورحق کی جنگ میرے نواسے نے ہی کربلا کے میدان میں لڑنی ہے اور دین اسلام کی بقاءکے لیے ایک لازوال قربانی دینی ہے۔ امام عالی مقام کی ہستی وہ ہے جس نے اپنی گھٹی میں لعاب نبی ﷺ پایا۔اُس حسینؓ کو ہی اللہ نے دین کی آبیاری کے لیے چُنا۔ اللہ نے حسن ؓ اورحُسینؓ کو جنت میں جوانوں کا سردار بنایا۔یزید نے تخت پر بیٹھنے کے بعد شریعت کو بھلا دیا اور رشتوںکے تقدس ،اسلامی قوانین کو اُس نے اپنے قدموں تلے روند دیا۔امام پاک پھر کیسے ایسے فاسق جابر ظالم اور نمائندہ ابلیس کی بیعت کرتے ۔آپ نے اِس کے خلاف اعلان حق کا اعلان کیا۔مدینہ اور مکہ سے نکلتے وقت آپ کو بہت سے اصحاب اور بزرگوں نے کوفہ جانے سے منع کیا کیونکہ کوفہ والے وفادار نہیں ہیں اور ہم نے رسول ﷺ سے سُن رکھا ہے کہ آپ ظالموں کے ہاتھوں قتل ہوں گے اور لوگ خاموش رہیں گے یا اگر جاتے ہو تو خواتین کو نہ لے جایں ۔جب بیعت سے اِنکاری پر امام عالی مقام کو کوفہ جانے سے روکا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ُاے بندگان خدا!!! کیا تم اس چیز کا مشاہد ہ نہیں کر رہے ہو کہ حق پر عمل نہیںہورہا ہے اور باطل کی مخالفت نہیں کی جارہی۔گمراہی کے اس ماحول میںضروری ہے کہ مردِ مومن حق کا طلب گاراورخُدا سے ملاقات کا متمنی ہو۔میں اِس مرحلے پر عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیع دیتاہوں۔میرے لیے یزید جیسے فاسق اِنسان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی بجائے موت کی آغوش ہزار درجہ بہترہے ُ۔ میں شہادت کو سعادت وخوش بختی اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لیے ہلاکت و عار سمجھتا ہوں©©©“۔ اپنے گھر والوں و چند صحابہ کرام کے ساتھ کربلا کے میدان میںدو محرم الحرام 61 ہجری کو پہنچے اور فرمایا بے شک میں شہادت کو سعادت اور خوش بختی ایک جابر وظالم فاسق حکمران کے خلاف سمجھوں گااور فرمایا تم یہ جان لو کہ میں اِنصار اور اِصحاب کم ہونے کے باوجود بھی حق وصداقت کے لئے جنگ کرﺅں گا۔یزید نے لاکھوں کا لشکر بھیج کر جنگ کا آغاز کیا۔اورخود جب سب اپنے پیاروں کو یکم محر م سے لے کر دس محرم تک اسلام کی راہ میں بھوک وپیاس کی حالت میں اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا ۔چھ ماہ کے کم ترین شہید علی اصغر ؑ سے لے کر 73 برس کے اپنے دوست حبیب ابن مظاہر کی شہادت ، جوان بھائی عباس علمبر دار ،اپنے جوان ا ٹھارہ سالہ بیٹے علی اکبر شبیہ رسُول ﷺ کے سینے سے برچھی نکالنا،اپنے داماد وبھتیجے تیرہ سالہ شہزادہ قاسم کی لاش ٹکڑوں میں خیمہ لانے کا حوصلہ صرف حُسین ؑ صابر کے پاس ہی تھا ۔ کائنات میں نہ ایسی قربانی اللہ کی راہ میں آج تک نہ دی اور نہ رہتی دُنیا تک کوئی دے سکے گا۔ کتنے مضبوط اعصاب اور حوصلہ وصبر کے بلند معیار پر 56 برس کا یہ جنت کا سردار تھا ۔
دس محرم کی شب کو اپنے تمام صحابہ کرام کو شب عاشورہ کی رات کا ایک پہر امام عالی مقام نے اپنے اِصحاب کے ساتھ گزارا۔فرمایا کہ ”یہ لوگ میری اور میرے اہل خانہ کی جان کے دُشمن ہیں ۔ میںتم سب کو جنت کی بشارت دیتاہوں ۔ چراغ گُل کر رہاہوں آپ کو بخوشی جانے کی اجازت دے رہاہوں۔پھر جب دُوبارہ چراغ جلایا گیا تو تما م اصحاب میںسے کوئی بھی نہ گیاتھا ۔سب فرمانے لگے ہمارے والدین ،بچے آپ پر قربان ہوں ہم کیسے آپ کو اِس وقت مشکل میں چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔روزمحشر کوآپکے نانا کو کیا جواب دیںگے۔وفا کی ایسی تصویر آپ کو کسی بھی جگہ نہیںملے گی ۔پھر جب دس محرم کو آپ اکیلے رہ گئے تو نیزوںوتیروں کی بارش میںدس محرم عصر کے وقت حالت نماز میں جان دے کر اِسلام کاجھنڈا رہتی دُنیا تک سربلند کردیا ۔ اس سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ دین محمدی ﷺ اپنے نانا کا دین بچ جائے ۔اللہ کی وحدانیت کا جو اقرار کلمہ میں کرتے اس کی بقا ءکے لیے اپنا سب کچھ پیش کردیا۔اور پھر کربلا والے ہمیشہ کے لیے یزید سے جیت گئے ۔کربلا کے واقعہ کے چند ماہ بعد یزید ،شمر اور دیگر ظالم سردار جنہوں نے کربلا میں طُلم کی انتہا کردی کہ آسمان لرز اُٹھا ۔رَب کو یہ عظیم الشان قربانی اتنی کربلا والوں کی دین ِاسلام کی سربلندی کے لیے پسند آئی کہ قدرت نے اپنا انتقام چند ہی دِنوں و ماہ میں ہی ان ظالموں سے لے لیا کہ یزید اور اُس کے حواری ہمیشہ کے لیے ایک عبرتنا ک مثال بن گئے ۔ اقتدار ان سے چھین لیاگیا ۔رعایا اِن کو حقارت اور نفرت سے دیکھنے لگی جب یزید فوجوں کی ظلم کی داستانیں عام ہویں ۔مولا کے صحابی امیر محتار نے ایک فورس بنا کر چُن چن کر واصل جہنم اُن کو کیا جنہوں نے کربلا کے میدان میں اہل بیعت وصحابہ کرام پرظُلم کے پہاڑ ڈھائے تھے۔ شمر اور دیگر ظالم سرداروں کی آج لوگوں کوقبریں تک نہیں معلوم ہیں ۔ آج یزید کی قبر دمشق کے سنسان وویران تنگ علاقے میںہے جہاں کوئی نہیں جاتا ۔
یزیدفاسق کی چند دِن کی حکمرانی اور پھر اس کا حولنا ک انجام اورآج اِس کی قبر انجانے میں عبرت کامقام بنی دکھائی دیتی ہے ۔اہل بیت کی یہ قربانی رب کو اتنی پسند آگئی کہ ذکرحُسین ؑ کو تاحشر تک امر کردیا۔ حسینؑ زندہ باد ہے یزید مُردہ بادکی صدائیں چود سوسالوں سے سُنائی دی جارہی ہیں اور روز محشر تک یہ ہی سماں ایسا ہی رہے گا۔کربلا کی زمین پر اللہ کا ذکر وصدئیں ہر لمحہ کربلا والوں کی فتح کو نوید سُنا رہی ہیں۔پرندے امام کے حرم سے عقیدت کے ساتھ کبھی اُوپرسے نہیں گزرتے ہیں ۔فرشتے امام عالی مقام کو سلام عقیدت پیش کرنے آسمانوں سے آتے ہیں۔اللہ تیری شان جنت حُسین ؓ کی کربلا کی زمین مقدسہ کو ہی بنا ڈالا۔کربلا والوں کی جنت میںہر وقت اللہ کا ہی ذکر جاری رہتاہے۔پانچ وقت کی اذان حُسین ؑ کی لازوال فتح کا پیغام سُنا رہی ہے ۔بے شک اللہ اُن سے محبت کرتاہے جو حُسینؑ سے محبت کرتے ہیں۔
یزید تیرا تخت و تاج دو گھڑی کا تھا
ہے آج بھی دِلوں پر حکومت حُسینؑ کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے