عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ؛ باہر کی دنیا میں ناکام و نامراد رہنے والے مرد اپنی ناکامیوں یا نامرادیوں کا غصہ گھر کی عورتوں کو مار پیٹ کراتارتے ہیں ۔امریکی افواج کی مسلط کردہ موجودہ افغان حکومت امریکہ ہی کے مخفی اشاروں پر اسلام کو ازمنہ قدیم کے ایک ایسے مذہب کی صورت پیش کرنے کی کوشش کئے جا رہی ہے ، جو جدید دور اور جدید علوم سے آراستہ دنیا کےلئے کسی صورت قابل عمل اور اسی لیے قابل قبول نظر آنے نہ پائے ۔شاید یہی واحد خدمت ہے جو یہ ناخواندہ ، نیم پختہ اور عقلی اعتبار سے خفتہ ملاں پر مشتمل افغان حکومت کر رہی ہے ۔اسلام کی جو تعبیر خود کوطالب علم کہلانے والے ملا پیش کر رہے ہیں ،وہ کسی طور اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ابھی افغان حکومت نے اپنی ”ذاتی شریعت“نافذ کرتے ہوئے افغان خواتین پر گھروں میں بنی کھڑکیاں تک قانونا بند کر دی ہیں۔یہ قدغن اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ پاس سے گزرتے ہوئے متقی اور پرہیز گار مردوں کی تیز اور زود اثر نگاہیں ان کھڑکیوں سے اندر جھانکتے ہوئے گھروں میں مستور خواتین کو دیکھ نہ پائیں۔ ،لہٰذا متقی اور نیکوکار مردوں کو غیر محتاط اور غیر مجاذ نظر بازی نہ کرنے کی تربیت اور تعلیم دینے کی بجائے گھروں میں کھڑکیوں کی تعمیر پر ہی پابندی لگا دی گئی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح سے مردوں کا خواتین کو دیکھ لینا فحش حرکات کی تمہید بن سکتا ہے۔ افغان خواتین سے متعلق یہ اور اس طرح کے دیگر ناروا فیصلوں کا آغاز اگست 2021 میں طالبان کی امریکی تائید و حمایت کےساتھ افغانستان کے اقتدار پر نہایت پرامن طریقے سے قابض ہونے کے بعد ہی سے ہو گیا تھا۔ اس بات پر سنجیدہ نفسیاتی تحقیق ہونی چاہیئے کہ آخر کیوں افغانستان کے ملا خواتین کو دیکھتے ہی، بلکہ سوچتے ہی اشتعال کا شکار ہو جاتے ہیں۔وہ ان کو معاشرتی سرگرمیوں سے بالکل الگ کر دینا چاہتے ہیں۔وہ ان خواتین پر تعلیم ، ملازمت اور کاروبار کرنے پر پابندیاں لگا کر ایک طرح سے افغانستان کے متقی اور پرہیزگار مردوں کی ہتھیلی پر دھری آبرو کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔اگرچہ اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں نے اس طرح کے غیر منطقی اور غیر انسانی فیصلوں کی مذمت کی ہے ،یہاں تک کہ اسے”جنسی نسل پرستی“تک کا مظہر قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ افغان خواتین اور بچیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے فوری طور پر ضروری اقدامات کئے جائیں۔افغان حکومت نے خواتین کے حقوق سلب کرنےوالے ان قوانین کا مقصد اور منشا بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؛ اس طرح کی قانون سازی کا مقصد”نیکی کو فروغ دینا اور برائی کے امکان کو ختم کرنا ہے۔ ان قوانین کا نشانہ صرف خواتین کا جسم اور جان ہی نہیں ، ان کی آواز بھی ہے۔ ان قوانین کے مطابق افغان خواتین نہ تو عوامی مقامات پر بلند آواز میں بات چیت کر سکتی ہیں،اور نہ ہی گھروں سے باہر اپنا چہرہ دکھا سکتی ہیں۔گویا ایک طرح سے خواتین سے وابستہ ہر شے کو گناہ کا باعث قرار دیا جا رہا ہے ۔ان کا گھروں کے اندر نظر آنا ، ان کا گھروں سے باہر نکلنا، ان کے چہرے کا دکھائی دے جانا ،یہاں تک کہ ان کی آواز کا سنائی دینا تک مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیا گیا ہے ۔اس جہالت آمیز اور روح اسلام سے منافی قانون کی حتمی منظوری طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے دی ہے۔ موصوف کی اخبارات میں نظر آنے والی تصویر ایک اداس ، مایوس اور بیگم کے ستائے ہوئے شوہر کی تصویر نظر آتی ہے لیکن ستم ظریف کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہے بھی تو اس کی سزا پورے افغانستان کی خواتین کو دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ میں نے اس نادان ستم ظریف کو سمجھایا ہے کہ افغان حکومت کے اقدامات کا بنیادی مقصد امریکی منشا کے عین مطابق اسلام کو ایک فرسودہ اور موجودہ دور کے تقاضوں سے متصادم مذہب ثابت کرنا ہے ۔اور یہ خدمت یہ کج فہم ملا پوری جانثاری کے ساتھ بجا لا رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کی طرف سے خواتین سے متعلق اس طرح کی غیر متوازن اور غیر شرعی قانون سازی کوئی نئی بات نہیں۔ سال 2021 کے اواخر میں اپنی آمد کے فوراً بعد افغان ملاں نے خواتین کی تعلیم ، معاشرتی و معاشی حقوق اور انسانی آزادی کے حق کو اپنی امریکی بندوق کے نشانے پر رکھ لیا تھا۔حیرت ہوتی ہے کہ ابھی تک افغان ملاں کا وقت ایک جگہ رکا ہوا ہے ، یا کچھ اچکوں نے اچک لیا ہے ،جو کچھ بھی ہے ،ٹھیک بہرحال نہیں ہے۔یہاں میں دسمبر ،2022 میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم کے اقتباس کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آج ہی کی صورت حال پر لکھی ہوئی ایک تحریر ہے: ..پاکستان کے ہمسائے میں واقع مسلم ملک افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر قدغن اور بدترین صنفی امتیاز نے حکمران ملاں کی ”افادیت اور ضرورت“کو ایک بار پھر ثابت کردیا ہے۔اگرچہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دھیمے سروں میں افغان خواتین کو جدید تعلیم کے حصول سے الگ کرنے کے فیصلے پر تنقید تو کر رہے ہیں ،لیکن اس تنقید کے دوران ان کے چہرے کی مسکراہٹ ثابت کرتی ہے کہ سب کچھ ان کی حقیقی منشا کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ملازمت کرنے والی خواتین کو بھی گھر پر رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں ۔یہ سب کچھ مضحکہ خیز سا لگتا ہے، پر افغانستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ اعلی تعلیم کے وزیرکے مطابق حکومت نے یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ان کا موقف ہے کہ ایسا "شریعت ” کے نفاذ کی خاطر کیا گیا ہے۔
(……..جاری ہے)
کالم
خواتین سے خوفزدہ طالبان حکومت
- by web desk
- جنوری 12, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 77 Views
- 3 مہینے ago