کالم

دل جلے کی باتیں

چند دن پہلے ایک صاحب جنہیں عام زبان میں سفید پوش کہا جاتا ہے مجھ سے ملنے کےلئے میرے آفس تشریف لائے میں نے حسب عادت پر تکلف چائے پیش کی چائے ختم ہونے تک گفتگو ہوتی رہی ان سے میں نے تاخیر سے ملنے کی وجہ معلوم کی تو فرمانے لگے مصروفیت کا تو آپ کو علم ہے کہ پنشن میں گزر اوقات مشکل سے ہوتی ہے آخری ہفتے میں کبھی کسی دوست سے کبھی کسی دوست سے قرض مانگتا ہوں ،پنشن ملنے پر وہ قرض اتار دیتا ہوں لیکن جو کمی اس قرض کی معقول رقم اتار کر ہو جاتی ہے وہ دور نہیں ہوتی ہزاروں روپےکے بجلی اور گیس کے جو بل ادا کر نے کے بعد جو رقم بچتی ہے وہ پورے مہینے کی ضروریات پوری کرنے کےلئے ناکافی ہوتی ہےآمدنی کے مزید ذرائع نہیں اس وجہ سے دوستوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے آپ یقین کریں اب تو وہ شکل دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ قرض مانگنے کےلئے تشریف لائے ہیں بھلا ہو ان کا وہ مجھے مایوس نہیں کرتے اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے بچے یورپ اور امریکہ جیسے امیر ملکوں میں رہائش پذیر ہیں محنت کرتے ہیں اور نہ صرف وہاں اپنی ضرورت سہل طریقے سے پوری کرتے ہیں بلکہ والدین کو پاکستان میں بھی ہر ماہ معقول رقم بھیجتے ہیں میری طرح کے پینشنرز دوست مجھے انکار نہیں کرتے۔ ان کی زندگی بہت آسانی سے گزر رہی ہے اور ہمارے جیسے قرض پر گزر اوقات کرنے والوں کے شب و روز بھی گزر ہی جاتے کبھی کبھی جب رات کو آنکھ کھل جائے تو یہ خیال سونے نہیں دیتا کہ کب تک منگتے بن کر زندگی گزرے گی دوستوں کے سامنے دو ٹکے کی عزت نہیں انگریزی اور اردو کی آڑ میں طلب اور رسد کی تھیوری چل رہی ہے مجھے لگتا ہے میں اک ڈیٹھ بھکاری کی طرح کا انسان بن چکا ہوں قرض کے بغیر مہینہ نہیں گزرتا میں اپنی کن کن ضروریات کو پس پشت ڈال کر مہینے بھر کا پروگرام مرتب کروں سوچ کے سہاروں کے باوجود کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہوں لعنت ہے ایسی زندگی پر جو میں گزار رہا ہوں ماڈرن بھکاری بن چکا ہوں کوئی کہے یا نہ کہے یہ حقیقت ہے کہ میں پڑھا لکھا ایک سٹیٹس انجوائے کرنے کے باوجود مانگت ہوں مجھے لگتا ہے میری حالت کو دیکھتے ہوئے میرے دوست اب ملازموں سے کہلوا دیا کریں گے کہ صاحب گھر پر نہیں مجھے جب قرض نہیں ملے گا تو میری گزر اوقات کیسے ہوگی یہ سوچ کر میری حالت غیر ہو جاتی ہے میرے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ اس ذلیل کر دینے والی عادت سے چھٹکارا پاوں دن بھی گزر جاتا ہے اور شب کی تاریکی اور تنہائی بھی۔ یہ زندگی جس انداز سے گزر رہی ہے اس سے میں خود بھی مطمئن نہیں آخرت میں کیا نتائج دے گی۔ ہاں یہ سوچ کر دل کو تسلی ہو جاتی ہے کہ ہمارے ملک کو معرض وجود میں آئے ماشااللہ پچھتر سال گزر چکے ہیں ہم طاقتور ملکوں سے انگریزی زبان کی آڑ میں معاشی ابتری کا رونا روتے ہیں اور پھر وہ ملک ہماری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے قرض دینے پر رضا مند ہو جاتے ہیں ورلڈ بینک آئی ایم ایف ان رحم دل ملکوں کے علاوہ ہیں جو ہماری زندگیوں کے ایام گزارنے کا سبب ہیں جس کی حکومت آتی ہے وہ ہمیشہ قرض مانگنے کےلئے خوش گفتار خوش لباس خوش اطوار ساتھیوں کا وفد تیار کر کے انہیں غیر ملکی سفر پر روانہ کر دیتی ہے کہ اپنا کماو تے اپنا کھاو یعنی جتنا خرچہ انتخابات میں حصہ لینے اور کامیاب ہونے پر ہوا وہ منافع کے ساتھ اپنی تجوریوں میں ڈالیں کیونکہ سود تو حرام ہے اور کاروبار میں منافع حلال ہے سیاست بھی کاروبار ہے اور وقت کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے ہمارے ملک کی سیاست جاگیر داروں سرمایہ داروں کارخانے داروں اور اسی طرح کے ملتے جلتے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی باندی ہے کیا ایسا کبھی ہوا ہے کہ تعلیم یافتہ شریف النفس شخص عوام کی تائید سے اسمبلی کا ممبر بنا ہو یا وزیر با تدبیر بننے کی لاٹری اسکے نام نکلی ہو ہمیشہ چند گھرانوں کے دن بدلے ہیں اور بدلتے جا رہے ہیں جنہوں نے کبھی پراٹھا نہیں کھایا تھا ان کے دسترخوان پر انواع اقسام کے کھانے سجے ہوتے ہیں عام آدمی چائے کی پیالی میں روٹی ڈبو کر کھانے پر لگا ہوا ہے اب حال یہ ہے کہ دال سبزی اور چائے کے نرخ بھی قوت خرید سے باہر ہیں غریب کس طرح کھائے اور کس طرح اپنی فیملی کے خرچے پورے کرے دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکسز بھی عوام ہی دیتے ہیں ان ٹیکسز کی شرح اور حدود بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس وقت جو ملکی حالات ہیں انہیں بہتری کی طرف لانے کے لیے بھی عوام ہی کی گردن چھری تلے آئے گی قرض لینے والے ذاتی خوشحالی کو چار چاند لگا کر اپنے اپنے غیر ملکی آشیانوں میں جا کر آباد ہو جائیں گے ملک مزید قرض کے بوجھ تلے دب جائے گا فصلی بٹیرے تو اڈاری مار جائیں گے اور عوام دو وقت کی روٹی کے بندوبست میں بھی ناکامی کو گلے لگائیں گے ہم بھکاری قوم کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں اس کیفیت اور حالات سے چھٹکارہ پانے کےلئے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ امرا اور غربا سب سادہ زندگی گزاریں تعیش کے ایام بھول جائیں سواری کےلئے سائیکل استعمال کریں سادہ لباس پہنیں سادہ خوراک ہو عیاشی کے تمام اڈے بند کر دیے جائیں نہ کوئی فائیو سٹار ہوٹل ہو نہ ہی بڑی بڑی گاڑیاں جن میں بیٹھنے والوں کی گردن میں سریا آ جاتا ہے جنہیں قانون بھی اپنی گرفت میں لیتے ہوئے سو بار سوچتا ہے جس ملک میں انصاف دینے والوں کو خدشات ہوں وہاں غریب آدمی کی جان مال اور عزت اللہ کے سپرد ہوتی ہے ملک چلانے والوں کی ذمہ داری غیر ملکی اداروں سے قرض کا حصول اور اس بوجھ کو مزید پڑھانا ہوتا ہے یہاں تو یہ جملہ صادق آتا ہے کہ لگانے والے کو ملے گا سیاست دان رقم لگاتا ہے اور کماتا ہے یہاں سیاست نہ صرف پیشہ بن چکی ہے بلکہ کاروبار کا رخ اختیار کر چکی ہے موٹر سایئکل پر سفر کرنے کاعادی انتخاب میں کامیاب ہو جائے تو پجارو سے کم بات ہی نہیں کرتا بڑا گھر بڑی گاڑی غیر ملکی دورے شاپنگ بلکہ بیوٹی پارلر کے تعاون سے شکل تبدیل کرواتے ہیں تاکہ جدی پشتی امیر گھرانے سے تعلق شدہ نظر آئیں عوام کی سننے والا کوئی نہیں ان کی قسمت میں فاقہ کشی کے علاوہ کچھ نہیں ان صاحب کی باتیں سن کر بہت پریشان ہو گیا باتیں تو سچ تھیں مگر مجھ میں سننے کا حو صلہ نہیں بس دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ غیب سے ایسا بندوبست کرے جو عوام کےلئے خوشحالی کا باعث بنے ان کی زندگی بغیر پریشانیو ں کے گزرے وہ ملک کے باعزت شہری بنیں اور بیرون ملک سفر میں بھکاری قوم سے تعلق رکھنے والے بندے کے طور پر نہ پہچانے جائیں انکی عزت ہو زندگی کے شب وروز آسانی سے گزریں قرض کی لعنت سے دامن چھڑا چکے ہوں اداس چہرے اور پرنم آنکھوں سے آنے والے مہمان نے مجھ سے اجازت مانگی اور میں بوجھل دل اور دماغ سے انہیں صدر دروازے تک رخصت کرنے گیاان کے جانے کے بعد سوچتا رہا کہ ہمارا ملک جو اتنی قربانیوں کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرا کب تک معاشی بدحالی کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا اس کے چلانے والے کب اسے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے اسباب مہیا کریں گے ہم اپنے ماحول سے صرف حاصل کرنے پر لگے ہوئے ہیں اسے کچھ دیتے نہیں ہم آسائشوں میں گرفتار نمائشوں کے پرستار آرائشوں کے پجاری آلائشوں کی بیماری میں کراہ رہے ہیں بڑے مقاصد پیش نظر نہیں اللہ رحم فرمائے وہی اپنی پاکستانی مخلوق کےلئے اسباب بھی پیدا کرے گا اور حرص ، ہوس سے آزاد معاشرہ بھی اس کے رحم و کرم کی بدولت قائم ہوگا پاکستانیو کے دن بھی کبھی بدلیں گے ان شااللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے