نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کا دا ر ومدار بجا طور پر قوم کے سیاسی ، معاشی اور سماجی اتفاق واتحاد میں ہے ، اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری قومی قیادت کو نیشنل ایکشن پلان کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا ، وطن عزیز میں جاری سیاسی ، مذہبی اور لسانی دہشت گردی کا تقاضا ہے کہ اس ہم منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں مزید کسی تاخیر کے مرتکب نہ ہوں ، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ محدود وسائل کے باوجود حکومت پوری قوت کے ساتھ ان انسانیت کے دشمنوں کے خلاف برسر پیکار رہے گی جو ارض وطن میں کشت وخون کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، درحقیقت 2015میں نیشنل ایکشن پلان کا قیام عمل میں لایا گیا تو پورے عزم و یقین کے ساتھ اعلان ہوا کہ دہشتگردی اور انتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڈ دیا جائے گا ، دراصل نیشنل ایکشن پلان کے بنیادی نکات میں شامل ہے کہ ارض وطن سے ہر قسم کی انتہاپسندی اوردہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا، اس ایکشن پلان کی ایک شق یہ بھی تھی کہ بلاتفریق ان علاقوں میں مسلح جتھوں کا قلع قمع ہو گا جو امن وامان کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ،مذکورہ پروگرام میں پورے یقین کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ سیکورٹی فورسز میں غلطیوں سے پاک خفیہ اطلاعات کے تبادلہ کا نظام وضع کیا جائے گا، قومی ایکشن پلان یعنی نیپ میں سیکورٹی کا ایسا جامع نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو اپنی افادیت یوں ثابت کرے کہ خبیر تا کراچی مملکت خداداد میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کا نام ونشان مٹ جائے، ہم جانتے ہیں کہ قومی ایکشن پلان کی تشکیل دسمبر 2014میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے بدترین حملے کے بعد کی گی، مشکل کی اس گھڑی میں ملک کی سب ہی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے بھرپور انداز میں حصہ لیا تھا ، نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے حامی مسلح گروہوں کےخلاف بھرپور کاروائیاں کی گئیں جس کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے ، پی ٹی آئی دور میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے منعقدہ ہونےوالے اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم کو دو ٹوک انداز میں حکام نے بتایا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کوئی جامع منصوبہ یوں نہیں فراہم کرسکا کیونکہ نہ تو اس کے پاس مالی وسائل تھے اور نہ کوئی ٹائم فریم ورک ، مزکورہ اجلاس میں یہاں تک کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان میں شراکت داروں اور اس پر عمل درآمد کرنے والوں کی نشاندہی تک نہ ہوسکی ، اس پس منظر میں کہا جاسکتا کہ پولیس سمیت سیکورٹی فورسز نے دہشتگردی کیخلاف جو کامیابیاں حاصل کیں وہ اپنے بل بوتے پر تھیں، مذکورہ اجلاس کے مطابق وفاقی سطح میں تعاون ، مانیٹرنگ اور تنقیدی جائزہ لینے کا کوئی واضح طریقہ تک نہ تھا یقینا یہ حقایق پی ٹی آئی کی ناکامی تصور کیے جاسکتے ہیں، موجودہ صورتحال میں اگرمگر کے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر کرنا مشکل ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے مشکل دور سے گزر رہا ہے ، مثلا 26 اگست کو بلوچستان میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے وہ بطور پاکستانی ہماری آنکھیں کھول دینے کےلئے کافی ہونے چاہئیں، اس سیاہ دن بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر جس طرح پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی شناخت کرنے انھیں بے گناہ کو قتل کیا گیا اس نے اس سچائی پر عملا مہر تصدیق ثبت کردی کہ دہشت گردوں کا نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ ہی قومیت ، یعنی وہ اول وآخر مذہب ہی نہیں انسانیت کے بھی دشمن ہیں، یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی کی برسی پر کشت وخون کو جو بازار گرم کیا گیا، اس کی مذمت پاکستان کے ہر باضمیر فرد نے کی۔ یہی وہ عوامل تھے جن کے سبب وزیر اعظم پاکستان کو دوٹوک انداز میں کہنا پڑا کہ حکومت دہشت گردوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکے گی ، شہبازشریف نے یہ اعلان بھی کیا کہ آئین اور قانون کے دائرے کار میں رہ کر احتجاج کرنا اپنے مطالبات منوانا ہر پاکستانی کا حق ہے مگر مسلح جدوجہد کرکے نہتے اور معصوم عوام کے خون سے ہاتھ رنگنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ وقت آگیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر بلا تاخیر عمل کیا جائے ، ہم جانتے ہیں کہ مذکورہ منصوبے پر عمل درآمد کرنا صوبوں کی ذمہ داری ہے ، لہٰذایہاں یہ مطالبہ ہرگز غیر مناسب نہ ہوگا کہ وفاقی حکومت چاروں صوبائی حکومتوں سے استفسار کرے کہ مذکورہ منصوبہ پر مکمل طور پر عمل درآمد آخر کیونکر نہ ہوسکا، تشویشناک یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ پیچیدہ ہوچکی، جاری لڑائی میں ایک نہیں کئی عوامل کار فرما ہیں، مثلا بلوچستان میں تواتر کے ساتھ لسانی اور سیاسی دہشت گردی کروانے کا مقصد سی پیک منصوبہ کو ناکام بنانا ہے ، امریکہ اور بھارت کی جانب سے سی پیک کےخلاف منظم مہم سےانکار نہیں کیا جا سکتا ، دشمن جانتا ہے کہ تجارت کا فروغ ایسے کسی بھی ملک میں ممکن نہیں جہاں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ، جو پہلو حوصلہ افزا وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ارض وطن سے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے پوری طرح پر عزم ہے ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف سید عاصم منیر مستقل مزاجی کے ساتھ امن دشمنوں کے خلاف کاروائی جاری رکھے ہوئے ہیں چنانچہ اب صوبوں کا کام ہے کہ وہ بنا کسی مصلحت کے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کریں بصورت دیگر پاکستان دشمنوں کو شکست دینا ہرگز ہرگز آسان نہ ہوگا۔