کالم

روداد ایک کھیلوں کی تقریب کی

انتخابی منشور۔

مثل مشہور ہے کہ ایک صحت مند جسم میں صحت مند دماغ پایا جاتا ہے اور ایک کمزور جسم کمزور دماغ کا مالک ہوتا ہے۔صحت مند جسم کےلئے ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔بغیر ورزش اور کثرت کے ہمارا جسم کسل مندی،سستی کاہلی اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔تعلیم کا مقصد ایک ہمہ جہت شخصیت کی تیاری ہوتا ہے۔ تعلیم میں جسمانی تعلیم کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔معیاری تعلیم کےلئے جسم اور دماغ کی نشوو نما کولازمی تصور کیاگیا ہے۔جسمانی ورزش اور کھیل کود سے احتراز کی وجہ سے کئی جسمانی اور ذہنی عوارض جنم لینے لگتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف دانشمندی کا حصول نہیں ہے بلکہ زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کےلئے اچھی صحت اور تندرست جسم کی تیاری بھی مقصود ہے۔اسی لئے جسمانی تعلیم اور کھیل کود تعلیمی نصاب کا ایک جزو لاینفک قرار دیا گیا ہے – اسی تناظر میں چند دن پہلے انٹر کالجیٹ کھیلوں کا انعقاد وقوع پذیر ہوچکا ہے اور مختلف اداروں میں مختلف ایونٹ کا اہتمام ضلع لیول پرکیا گیا ہے آج جس کرکٹ میچ کی روداد آپ کے حسن انتخاب کی نظر کر رہا ہوں وہ ضرور قدر ومنزلت کا درجہ پائے گی-کرکٹ ایونٹ کاافتتاحی میچ گورنمٹ ایسوسی ایٹ کالج گکھڑ منڈی کی گراﺅنڈ میں گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کا لج گگھڑاور مولانا ظفرعلی خاں کالج وزیرآباد کے مابین کھیلا جارہا تھا جس کے مہمان خصوصی عزت مآب محمد سلیم آسی اسسٹنٹ کمشنر وزیرآباد تھے-نظامت کے فرائض راقم الحروف کے ذمہ تھے۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا – تلاوت کلام پاک کی سعادت سال دوم کے محمد یحی خان نے حاصل کی اور گلہائے عقیدت کا نذرانہ بحضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،سال اول کے طالب علم احد نے حفیظ تائب کی شہرہ آفاق نعت،خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصاف حمیدہ پیش کرکے مجمع میں روحانی کیفیت پیدا کردی ۔ نقیب محفل پروفیسر اصغر چیمہ نے پرنسپل کالج اور جملہ سٹاف کی طرف سے مہمان اعزاز و ذی وقار اسسٹنٹ کمشنر وزیرآباد محمد سلیم آسی صاحب کو عمق دل سے اور طلبہ نے انتہائی جوش وخروش سے خوش آمدید کہا۔ پرنسپل کالج ہذا محمد نعیم آصف چیمہ مہمان اعزاز کے لیے یوں رطب السان ہوئے کہ آپ کی پر مسرت آمد،گونا گوں مصروفیات کے باوجود،ہمارے مان اور شان میں ایک پروقار اضافہ ہے۔ کھلاڑیوں اور اساتذہ کرام سے تعارفی تقریب میں اسسٹنٹ کمشنر محمد سلیم آسی نے کھیلوں کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ تفریح ہمیشہ انسان کو مرغوب رہی ہے اور اس بات سے سرمو انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے کہ تفریح انسان کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی خوراک- آج کے مشینی دور میں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ دن بھر کی معاشی تگ و دو کے بعد انسان کچھ دیر کےلئے تفریح کے ذریعے اپنے ذہن و جسم کو سکون پہنچائے تاکہ وہ خود کو کل کی تیاری کےلئے آمادہ اور مستعد رکھ سکے۔ تفریحات میں کھیل سرفہرست ہیں ان سے دہرا فائدہ ہوتا ہے۔ نہ صرف تفریح کا مقصد حاصل ہوتا ہے جو اس مصروف ترین دور کی ایک اہم ضرورت ہے تو دوسری طرف جسم کی ورزش بھی ہوتی ہے جس سے انسان صحت مند رہتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ جب تک جسم صحت مند نہ ہو فکر و ذہن میں شگفتگی پیدا نہیں ہو سکتی – انسان جسمانی لحاظ سے علیل اور تھکا ہا را ہو تو فطری مناظر کی تمام رعنائیاں مل کر بھی اس کی پژمردگی کا ازالہ نہیں کر سکتیں- بیمار انسان کو ہر شے اداس نظر آتی ہے اگر جسم صحت مند ہو تو انسان خزاں کی ویرانیوں میں بھی کیف و مسرت کے سامان تلاش کر لیتا ہے گویا صحت مند ذہن کےلئے صحت مند جسم ضروری ہے اگر انسان کی سوچ میں رعنائی ہو تو زندگی کی مشکلات کو ہنستے کھیلتے برداشت کرتا چلا جاتا ہے اس کے سامنے پہاڑبھی کنکر ہو جاتے ہیں، صحرا¶ں کے ارادے سمٹ جاتے ہیں اور دریا اسے راستہ دے دیتے ہیں اس اعتبار سے کھیل انسان کی جسمانی اور ذہنی نشونما کے لیے انتہائی ضروری ہو جاتے ہیں دوران کھیل حاصل ہونےوالی کامیابیاں بچوں میں خود اعتمادی اور قلبی مسرت کے فروغ کا باعث ہوتی ہیں۔کھیل میں ناکامی بچوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت کو پروان چڑھاتی ہیں ۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی حوصلہ نہ ہارنے کی تعلیم کھیلوں کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے ۔ انفرادی کھیلوں کی بہ نسبت اجتماعی کھیلوں سے بچوں میں رغبت پیدا کرنا اہم ہوتا ہے۔اجتماعی کھیلوں کے ذریعہ بچوں میں سماجی تعلقات کو نبھانے اور معاشرتی زندگی کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ اجتماعی کھیل بچوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں ۔ ان میں ایک دوسرے سے صلاح مشورے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ان جذبات کے زیر سایہ بچے اپنی آنیوالی زندگی کے مسائل کو بڑی حد تک کامیابی سے حل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ کھیل کو د کے دوران فروغ پانے والے تعلقات اور بچپن کا یہ میل جول بچوں کو ایک ذمہ دار شہری اور اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان بنادیتے ہیں ۔ ان اوصاف کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنی ذات کو مستفیض کر تا ہے بلکہ ہر گھڑی دوسروں کی مدد کےلئے بھی تیار رہتا ہے ۔ کھیلوں کی نگرانی کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کےلئے ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اس احساس کو جا گزیں کریں کہ وہ جن کے ساتھ کھیل میں حصہ لے رہے ہیں وہ ان کے ساتھی اور دوست ہیں تاکہ ان میں حسد ، عداوت ،نفرت اور جلن کے جذبات نہ سراٹھا سکیں اور صحت مند مقابلہ کا جذبات ان میں پروان چڑھیں۔کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی قوت تخیل کو بال و پر دینے کے علاوہ اساتذہ ان میں نظم و ضبط کو بھی فروغ دیں ۔ کھیل بچوں کے احساس اذیت،غم و اندوہ اور احساس محرومی کو دور کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔ بچوں میں پائی جانے والی ناامیدی کو کھیلوں کے ذریعہ جوش و ولولے میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔کھیل بچوں میں مجروح جذبات اور منفی جذبات و رویوں کے اندمال کا سامان فراہم کرتے ہیں
کھیل زندگی کے تم کھیلتے رہو یارو
ہار جیت کوئی بھی آخری نہیں ہوتی
جہاں قومیں کافی حد تک اپنی ایک شناخت بناتی ہیں اور اپنے ملک کا نام روشن کرتی ہیں۔ اس لئے کھیلوں کی اہمیت نہ صرف طلبااور جوانوں میں نا قابلِ تردید ہے بلکہ قوموں کی عظمت اور شناخت بھی کھیلوں سے منسلک ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کھیل نا صرف انسان کی ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ملک کی خوشحالی اور ترقی میں بھی ایک خاص حیثیت رکھتا ہے اور تو اور کھیل وقت کا ضیاع نہیں بلکہ یہ وہ وقت ہے جو انسان کی مصروفیت بھری زندگی کو خوشگوار بنا تا ہے ۔ آخر میں انہوں نے پروگرام کے انتظامات کو سراہتے ہوئے پرنسپل کالج ہذا پروفیسرنعیم آصف چیمہ اور ان کے رفقائے کار کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا اور حاضرین محفل باالخصوص طلباءکا شکریہ ادا کیا اور اساتذہ کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے