کالم

زرعی اراضی کا تحفظ۔۔۔!

آج کی دنیا ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں خوراک کی فراہمی ایک نہایت اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ آبادی میں بڑھوتری کے ساتھ خوراک کی طلب بھی بڑھے گی۔ اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے مزید زمین درکار ہوگی۔ زمین کی مقدار میں اضافہ ممکن نہیں اور زرخیز علاقے پہلے ہی مختلف غیر زرعی سرگرمیوں کے تحت ختم ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال نے زرعی زمین کے تحفظ کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ اگر زرخیز زمینیں موجود نہ رہیں تو فصلوں کا حصول مشکل ہوگا اور خوراک کی فراہمی متاثر ہوگی۔ یہ حقیقت کسی بھی قوم کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ خوراک وہ بنیاد ہے جس پر انسانی صحت، معاشی ترقی اور معاشرتی استحکام قائم رہتا ہے۔
عالمی سطح پر زرعی اراضی کے نقصان کی رفتار خوفناک ہوتی جا رہی ہے۔ مختلف ممالک میں شہروں کا پھیلا اور غیر منصوبہ بند تعمیرات نے زرخیز زمینوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ خطے جو بہترین فصلیں دیتے تھے، آج رہائشی اسکیموں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کئی ممالک نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت قوانین بنائے تاکہ زرعی زمینوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ترقی یافتہ دنیا کا یہ قدم مستقبل کی ضرورت کو سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے یہ حقیقت تسلیم کر لی ہے کہ زرعی زمین کھو دینے کا مطلب خوراک کھو دینا ہے اور خوراک کھو دینا کسی ملک کے لیے تباہی کا اشارہ ہے۔پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے یہ معاملہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ملک زرعی روایات کا امین ہے۔ یہاں کی زمین قدرت کی عطا کردہ نعمت ہے۔ دریاں کا نظام اس خطے کو سینچتا آیا ہے اور یہاں کی فصلوں نے پوری دنیا میں ایک خاص مقام برقرار رکھا ہے مگر شہروں کے گرد بننے والی ہاسنگ اسکیمیں زرخیز زمینوں کو ختم کر رہی ہیں۔ کسان اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں فوری فائدے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اس لین دین کا فائدہ وقتی ہوتا ہے لیکن نقصان نسلوں تک جاتا ہے۔ زمین بیچنے والا کسان نہ صرف اپنی معاشی آزادی کھو دیتا ہے بلکہ ملک کی زرعی پیداواری قوت بھی کم ہو جاتی ہے۔زرعی اراضی میں کمی کی وجہ سے خوراک کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ اگر خوراک کی مقدار بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق نہیں بڑھے گی تو خوراک کی قلت پیدا ہوگی۔ قلت پیدا ہوگی تو قیمتیں بڑھیں گی، مہنگائی میں اضافہ ہوگا، متوسط طبقہ مشکلات کا شکار ہوگا اور غریب طبقہ بھوک کا سامنا کرے گا۔ بھوک کسی بھی معاشرے میں جرائم اور انتشار کا باعث بنتی ہے۔ انسانی معاشروں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بھوک نے سلطنتیں گرا دی ہیں اور قوموں کو کمزور کر دیا ہے،اس لیے زرعی زمین کا تحفظ معاشرتی استحکام کی بنیادی شرط ہے۔ زرعی اراضی کا تحفظ معاشی، سماجی اور سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔پاکستان کو اپنی زرعی پالیسیوں میں واضح اصلاحات کی ضرورت ہے۔ زرعی زمینوں کو غیر زرعی مقاصد کے لیے بیچنے یا استعمال کرنے پر پابندی کا موثر نفاذ ہونا چاہیے۔ شہروں کے پھیلا کی منصوبہ بندی اس انداز میں ہونی چاہیے کہ زرخیز زمین متاثر نہ ہو۔ نئے شہر بنجر علاقوں میں بنانے چاہییں تاکہ زرعی زمین محفوظ رہے۔ صنعتی زون بھی انہی علاقوں میں قائم ہوں جہاں زراعت ممکن نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو سخت فیصلے کرنے ہوں گے اور زمین کی حفاظت کو قومی ترجیح بنانا ہوگا۔خوراک کی فراہمی آنے والے برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی ضرورت بننے والی ہے۔ طاقتور ممالک اسی حقیقت کو سمجھ کر اپنی زرعی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ مستقبل کی دنیا میں خوراک وہ طاقت ہوگی جو معاشی اور سیاسی فیصلوں کو متاثر کرے گی،اسی لیے وہ زمینوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور زرعی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا کے کئی حصے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ کئی خطوں میں انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ کئی ریاستیں درآمدی خوراک پر مکمل انحصار کر رہی ہیں۔ ان ریاستوں کی خودمختاری کمزور ہو چکی ہے اور عالمی منڈیوں میں قیمتوں کا اتار چڑھا انہیں مزید غیر مستحکم کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس خطرے سے بچنے کے لیے ابھی سے اپنی زمینوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اگر زمین محفوظ رہی تو قوم محفوظ رہے گی۔ اگر زمین کم ہوتی گئی تو غذائی بحران مستقبل کا سب سے بڑا چیلنج بن جائے گا۔
زرعی اراضی کا تحفظ صرف معاشی ضرورت نہیں بلکہ ایک تہذیبی فریضہ بھی ہے۔ زمین ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ دیہی زندگی کی خوبصورتی اسی زمین سے جڑی ہے۔ جب زمین ختم ہوگی تو صرف خوراک ختم نہیں ہوگی بلکہ معاشرتی ڈھانچہ بھی متاثر ہوگا۔ دیہات سکڑ جائیں گے۔ روایات ختم ہو جائیں گی۔ تہذیبی ورثہ ٹوٹ جائے گا،اس لیے زرعی زمین کا تحفظ ثقافتی تسلسل کے لیے بھی ضروری ہے۔عالمی سطح پر جن ممالک نے اپنی زرعی پالیسیوں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا وہ آج خوشحال ہیں۔ ان کے پاس خوراک کے ذخائر موجود ہیں۔ ان کی معیشت زرعی پیداوار کی بنیاد پر مضبوط کھڑی ہے۔ انہوں نے زمین کو ضائع ہونے سے بچایا ہے اور اس سرمایہ کو سنبھال کر رکھا ہے۔ زرعی زمین کا تحفظ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ سماجی سطح پر شعور بیدار ہونا چاہیے کہ زمین کی حفاظت قومی ذمہ داری ہے۔ معاشرے کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ زمین بیچ کر ہاسنگ اسکیم میں تبدیل کر دینا ترقی نہیں بلکہ تباہی کا راستہ ہے۔
زرعی اراضی پوری انسانیت کی مشترکہ ضرورت ہے۔ دنیا کی سلامتی اسی زمین سے جڑی ہے۔ عالمی امن اسی وقت ممکن ہے جب دنیا کے پاس خوراک کی مناسب مقدار موجود ہو۔ خوراک کی کمی انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ کمزور انسان جرم کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جرم معاشرے کی بنیادیں ہلا دیتا ہے، اسی لیے دنیا کے امن کے لیے بھی زرعی زمین کا تحفظ ضروری ہے۔
پاکستان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ اپنی زرعی زمین کو محفوظ کر کے ایک مستحکم مستقبل کی بنیاد رکھے۔ اگر آج مضبوط فیصلے کیے گئے تو آنے والا کل محفوظ ہو سکتا ہے ۔زمین انسانی بقا کی بنیاد ہے۔ یہ بنیاد محفوظ ہے تو معاشرے محفوظ ہیں۔ یہ بنیاد مضبوط ہے تو ریاستیں مضبوط ہیں۔ یہ بنیاد کمزور ہے تو سب کچھ کمزور ہو جاتا ہے۔ زرعی اراضی کے تحفظ کا فیصلہ محض زرعی پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ قومی تقدیر کا فیصلہ ہے۔ جو قومیں اپنی تقدیر کو محفوظ رکھتی ہیں وہ آنے والے دور میں سرخرو ہوتی ہیں۔ زرعی زمین کی حفاظت پوری قوم کا اجتماعی فریضہ ہے اور اس فریضے کی انجام دہی ہی مستقبل کی بقا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے