اداریہ کالم

سائفر کیس کا فیصلہ

سائفر کیس میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید بانی تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی ہے۔یہ کیس سفارتی دستاویز سائفر سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر غائب ہو گئی تھی، سائفر کا معاملہ پہلی بار 27مارچ 2022کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ایک جلسے میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب غیر ملکی سازش کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کےلئے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔ یہ سائفر7 مارچ2022 کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کےلئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجی گئی تھی۔بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔مذکورہ اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب بھی دیا گیا۔یی کیس کافی دنوں سے اڈیالہ میں چل رہا تھا، جس کا فیصلہ 30 جنوری ہوا اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ اس کیس کا سارا ٹرائل جیل کے اندر ہوا،جہاں عمران خان کو اگست میں گرفتاری کے بعد سے حراست میں رکھا گیا ہے۔ان سزاو¿ں اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ایسے وقت میں سنائی گئی ہیں جب ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں،اور ان کی جماعت کو سخت مشکلات کا بھی سامنا ہے،بلے کا نتخابی نشانہ بھی چھینا جا چکا ہے لیکن اس کے باجود پی آئی الیشن لڑ رہی ہے،اور سایکی مخالفین کے لئے سخت پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ منگل کو سائفر کیس کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے اعلان کے بعد پارٹی ترجمان نے ورکرز کا پرامن رہنے کی تلقین اور 8فروری کو ووٹ ڈالنے کی تاکید ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اپنے وکلا کی غیر موجودگی میں بیانات ریکارڈ کرانے سے انکار کیا تھا۔ اسکے بعد جج نے ایک مختصر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پارٹی اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کرے گی۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022 میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ساتھ ہوا تھا۔ تب سے وہ بدعنوانی کے ایک کیس میں تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی خصوصی عدالت، سائفر کیس کی سماعت میں ضابطوں کو بظاہر نظرانداز کرتے ہوئے جتنی عجلت سے کام لے رہی تھی اسے دیکھتے ہوئے اسی طرح کے فوری فیصلے کی توقع کی جارہی تھی۔یہ بات بھی واضح ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دو مواقع پر اسی کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا اور ہر بار کیس کو چلانے میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا گیا ۔ بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بھی اس فیصلے پر اپیل ہوگی تو شاید اعلیٰ عدالتیں خصوصی عدالت کے فیصلے کی توثیق نہ کریں۔تاہم دیکھنا ہو گا جب یہ کیس آگے جائے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ماضی میں ہونے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے یہ ماہرین کے نزدیک سوال اٹھتا ہے کہ خصوصی عدالت اس معاملے میں اتنی عجلت کیوں تھی۔پی ٹی آئی کے وکلا کو پورا موقع دینا چاہئے تھا،جسے نظر انداز کیا گیا۔،جو اس کیس کو کمزور بنا رہا ہے۔ جج نے مدعا علیہان کے لیے ان کی رضامندی کے بغیر سرکاری وکیل مقرر کیا اور بعد میں مبینہ طور پر مدعا علیہان کو استغاثہ کے گواہوں سے جرح کرنے کا حق بھی نہیں دیا۔جبکہ دونوں ملزمان کی جانب سے مقرر کردہ قانونی ٹیموں نے شکایت کی کہ انہیں بار بار کارروائی تک رسائی سے روکا گیا۔مقدمہ نمٹانے کےلئے پیر کے روز طویل سماعت ہوئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ یہ معاملات ہیں جو سوال بن کر اگلے مرحلے سامنے کھڑے ہوں گے۔ عمران خان کا جلسے میںایک کاغذ لہرانے سے لے کر انہیں مجرم ٹھہرائے جانے تک سائفر کا معاملہ ہماری سفارتی، قانونی اور سیاسی تاریخ کے ایک تلخ دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔اس کیس میں ایک الزام یہ بھی ہے کہ اسے عمران خان سیاسی فائدہ اُٹھایا لیکن دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کےلئے عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں معاشی معاملات سنبھالنے میں انکے مخالفین کی پی ڈی ایم حکومت کی ناکامی ثابت ہوئی جس میں عام آدمی کا بھرکس نکالا گیا اور یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔
بلوچستان میں دہشتگردی کی لہر
گزشتہ رات متعدد دہشت گردوں نے خود کش حملہ آوروں کے ہمراہ بلوچستان کے علاقے مچھ اور کولپور میں کمپلیکسوں پر حملہ کردیاجس کاقانون نافذ کرنے والے اداروں نے موثر جواب دیا۔ علاقے میں موجود سیکورٹی فورسز فوری طور پر آپریشن کرتے ہوئے 3خود کش حملہ آوروں سمیت 9دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 3کو زخمی کردیا۔ شدید فائرنگ کے تبادلے میںقانون نافذ کرنےوالے اداروں کے 4بہادر اہلکاروں اور 2معصوم شہریوں نے جام شہادت نوش کیا۔ دوسری جانب سبی میں پی ٹی آئی امیدوار کی ریلی جیسے ہی جناح روڈ پر پہنچی توخطاب کرنے والی گاڑی میں دھماکا ہوگیا، دھماکا اتنا شدید تھا کہ دور دراز تک آواز سنائی دی۔دھماکے میں چارافراد جاں بحق اور چھ زخمی ہوگئے، دھماکا جناح روڈ پر تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے امیدوار صدام ترین کی انتخابی ریلی کے قریب ہوا، الیکشن کمیشن نے سبی میں سیا سی جماعت کی ریلی میں ہو نے والے دھماکے کی رپورٹ چیف سیکر ٹری بلو چستان اور آئی جی بلو چستان سے طلب کر لی۔جیسے جیسے عام انتخابات کا دن قریب آرہاہے دہشتگردوں کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہورہاہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے ۔یہ بات توزبان زدعام ہے کہ دہشتگرد ی کی کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے جس کے ثبوت پاکستان نے ہرسطح پر پیش کئے ہیں۔دشمن ملک پاکستان کوعدم استحکام کرناچاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ عام انتخابات کے انعقاد میں خلل ڈال کرامن وامان کی صورتحال کو خراب کرے مگر اس کی یہ تمام سازشیں ناکام بنائی جارہی ہیں۔ہمارے سیکیورٹی ادارے ہروقت چوکس ہیں۔ ، بلوچستان کے علاقے مچ میں دہشتگردوں کا بزدلانہ حملہ پسپا ہو گئے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارتی سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کے پاس اس حملے کی اطلاع پہلے سے موجود تھی ۔ گزشتہ دنوں دفتر خارجہ نے بھی پاکستان کی جانب سے ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا بھارتی منصوبہ بے نقاب کیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ بھارتی ایجنسی را ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے اپنی سازشوں کے جال بچھا رکھے ہیں۔ عالمی سطح پر بھارت کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں بھارتی ایجنٹس کی تفصیلات موجود ہیں۔بھارت نے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں اور خطے کے ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بھارتی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اس لئے علاقائی اور عالمی امن مقصود ہے تو ہندوتوا کو فروغ دینے والے بھارتی ہاتھ روکنا ہونگے اس کے بغیر خطے میں امن و استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ادھرجان اچکزئی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری پیغام میں بتایا کہ بھارتی میڈیا پر دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق ان کے اپنے ہینڈلرز نے کی، بھارت میں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈاکیا گیا۔ منصوبے کو بچانے کی کوشش میں را کے ہینڈلرز نے دہشت گردوں کو پیچھے ہٹنے کا مشورہ دیا اس کے باوجود ہماری افواج نے انتھک انداز میں ان کا تعاقب کیا اور اس کے نتیجے میں وہ فرار ہونے میں ناکام رہے۔ را سے تعلق والے حملہ آوروں کو کامیابی سے بے اثر کرنے کے بعد مچ میں حتمی کلیئرنس آپریشن جاری ہے اور علاقے میں صورتحال مستحکم ہو گئی ہے۔امیدہے ملک میں عام انتخابات وقت پر ہونگے جس کےلئے تمام ترتیاریاں مکمل ہیں دشمن کی ہرسازش ناکام بنائی جائے گی ، سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے اورامیدواربھرپورطریقے سے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔عام انتخابات کاہونا آئینی وقانونی تقاضابھی ہے ،انتخابات کے انعقادسے ملک میں استحکام پیدا ہوگا۔ آج ملک کو جس طرح کے حالات کا سامنا ہے وہ انتخابات کے التوا کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ملک میں امن و استحکام کویقینی بنانے کیلئے پاکستان کی سیکورٹی فو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے