بدھ کے روز یہاں شور مچا تھا کہ وہ آ رہے ہیں، سب کو مار دیں گے، آگ لگا دیں گے۔ اپنے بچے لو اور یہاں سے بھاگ جا، اس لیے ہم بھاگ گئے اور قریبی کھیتوں میں خوف کے عالم میں رات گزاری ، پھر اگلے دن جمعرات کو جب واپس گھر آئے تو اپنے گھرکو دیکھ کر چیخیں نکل گئیں، ہم دہاڑیں مار مار کر رونے لگے، میری تین ماہ بعد شادی تھی، میرے بابا نے ساری زندگی ایک ایک پائی جمع کرکے میرے جہیز کا سامان بنایا تھا، وہ سب کچھ جلا کر راکھ بنا دیا گیا تھا،گھر کے اندر دیکھ کر معلوم ہوتا تھا جیسے یہاں ڈاکہ پڑا ہے۔ سامان ٹوٹا پھوٹا اور بکھرا پڑا تھا۔ کچھ ٹوٹی ہوئی چیزیں باہر پڑی تھیں، لوگ کھانے والے برتن بھی ساتھ لے گئے تھے اور پہننے والے کپڑے بھی۔چارپائیاں تک لے گئے تھےیہ الفاظ جڑانوالہ کی کرسچن کالونی کی سندس کے ہیں، جس کی رواں سال نومبر میں شادی تھی، سندس کو نہیں معلوم کہ اب اتنے کم وقت میں ان کے جہیز کا سامان کہاں سے آئے گا اور ان کی آئندہ کی زندگی کیسی ہو گی لیکن وہ اکیلی نہیں کیونکہ جڑانوالہ کی مسیحی برادری کی زیادہ تر بستیوں کی یہی کہانی ہے۔انھیں نہیں معلوم کہ وہ دوبارہ کبھی اسی بستی میں اسی طرح بغیر خوف اور خطرے کے رہ پائیں گے۔
جڑانوالہ میں ہوا کچھ یوں تھا کہ اس علاقے کے سنیما چوک کے پہلو میں واقع عیسی نگری میں بدھ کے روز 1947کے واقعات جیسا منظر تھا۔مسلمانوں کے محلے کی ایک گلی کی نکڑ سے چند اوراق ملے تھے، جس کے بعد وہاں لوگوں میں سخت غصہ تھا۔مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے اوراق تھے جن کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی گئی تھی۔ ان کے مطابق مبینہ بے حرمتی کرنے والے باپ اور بیٹے کی تصویر بھی ایک ورق پر موجود تھی اور ان کا نام پتا بھی لکھا ہوا تھا۔(حالانکہ جنہوں نے یہ کام کرنا تھا، وہ کیوں کر اپنا نام اور تصاویر جلے ہوئے نسخوں کے ساتھ رکھتے) خیر اس بات کی اطلاع ساتھ جڑے مسیحی برادری کے محلے تک پہنچ چکی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔پھر کچھ ہی دیر میں پاس کی مسجد سے اعلانات ہونے لگے۔ ان اعلانات میں مسلمانوں کو سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ اس کے بعد جو لوگ کسی امید پر پیچھے رکے تھے وہ بھی گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جن کے رشتہ دار قریب فیصل آباد شہر میں رہتے ہیں وہ ان کے پاس چلے گئے، جن کا کوئی اور نہیں تھا انھوں نے اپنی خواتین اور بچوں سمیت کھیتوں میں پناہ لی۔کچھ ہی دیر میں جتھوں کی شکل میں ہجوم عیسی نگری کے کیتھولک سینٹ پال چرچ کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گیا۔ ان میں سے کچھ نے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے، کچھ کے پاس مٹی کے تیل کی بوتلیں تھیں۔ وہ چرچ کو جلانا چاہتے تھے۔ ابتدائی طور پر چند پولیس اہلکاروں اور مقامی مسیحی برادری کے چند بچے کچھے مردوں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بڑھتا جا رہا تھا اور جلد ہی انھوں نے چرچ پر دھاوا بول دیا۔
یہ قیامت کا منظر ہوگا، ان لوگوں کے لیے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے تھے، ہجوم نے چرچ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، سامان اٹھا کر باہر پھینکا اور پھر چرچ کو آگ لگا دی۔ وہ وہاں سے مڑے تو چرچ کے آس پاس اور سامنے والے کئی گھروں کو آگ لگائی۔ یہ دو یا تین مرلے کے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جو پرانے طرز پر بنے ہیں۔پھر ہجوم میں سے کسی نے آواز دی کہ ان مردوں کا گھر چرچ کے عقب والی گلی میں ہے جنھوں نے مبینہ طور پر قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کی تھی۔ توڑ پھوڑ کرتا ہوا ہجوم اس گلی کی طرف چل پڑا۔پھر اگلے چند ہی منٹوں میں اس خاندان کا گھر، موٹرسائیکلیں، گھر کا سامان مکمل طور پر جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔اس سارے سانحے کی پوری دنیا میں میڈیا کوریج ہوئی اور ایک بار پھر پاکستان دنیائے عالم میں رسواہوا۔ کیوں کہ اس سانحے میں ایک نہیں ، دو نہیں پورے 20چھوٹے بڑے چرچ کو آگ لگائی گئی۔ اور 100سے زائدگھروں کو جلایا گیا۔
خیر جڑانوالہ میں اسلام کے نام پر اسلام کی جو رسوائی کی گئی ہے اس پر دل بہت اداس ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران انتظامیہ اور پولیس تماشائی بنی رہی۔ بلکہ پنجاب حکومت کے کسی نامعلوم ترجمان کے ٹِکر ٹی وی چینل پر چلتے رہے کہ صورتحال پر قابو پالیا گیا ہے۔ اب ہرطرف سے اسلام کے نام پر کی گئی اس غلیظ حرکت کی مذمت کی جا رہی ہے۔ اس طرح کی مذمت تو ہر دفعہ ایسے مواقع پر کی جاتی ہے۔ مگر کسی مجرم کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا۔ سانحہ سیالکوٹ دیکھ لیں، انصاف ہوتا اگر نظر آتا تو ہم بھی دیکھتے، پھر دنیا بھی دیکھتی اور کہتی کہ نہیں! یہاں واقعی انصاف کا بول بالا ہے۔ اگر سانحہ بادامی باغ میں ملوث افراد کو سزا ہوجاتی تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔اس جرم کے منصوبہ سازوں، مسجدوں سے اعلانات کرنے والوں، چرچز اور گھروں کو آگ لگانے، لوٹ مار کرنے والوں کو ایسا سبق سکھانا چاہیے کہ مستقبل میں کسی اندرونی یا بیرونی پاکستان دشمن کو ایسا کرنے کی جرا ت نہ ہو۔ پولیس کے ایک اعلامیہ کے مطابق ایک سو افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، یہ لوگ موقعہ واردات پر بھی گرفتار کئے جا سکتے تھے مگر پولیس ہجوم سے خوفزدہ تھی۔
کالم
سانحہ جڑانوالہ:کیایونہی رسوا ہوتے رہیں گے!
- by web desk
- اگست 21, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 212 Views
- 1 سال ago