اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے خط معاملے کو وسیع تر قومی مفاد میں دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کا از خود نوٹس بر وقت اور صائب پیش رفت ہے کیونکہ یہ نہایت حساس معاملہ ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان خود شکایت کنندہ ہیں حکومت نے معاملے کی سنگینی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی اعلی سطح پر تحقیقات کےلئے ایک رکنی انکوائری کمیشن بھی تشکیل دیا تھا لیکن وکلا کے ایک بڑے حلقے کی جانب سے اس اقدام کو ناکافی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات کا آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت نوٹس لینے کی استدعا کی گئی تھی وکلا کا موقف تھا کہ کسی حکومتی شخصیت کے زیر قیادت تشکیل پانے والے والا تحقیقاتی کمیشن تفتیش کےلئے مطلوب اختیارات اور غیر جانب داری کا حامل نہیں ہوگا آئین کا آرٹیکل 184 (3) سپریم کورٹ کا اصل دائرہ کار متعین کرتا ہے اور اسے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں کارروائی کے قابل بناتا ہے بالخصوص پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق پر عمل کے حوالے سے وکلا کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھاکہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا اچھی بات ہے مگر اب اس سے کہیں آگے جاکر حقیقتاً کچھ ایسا کرنا ہے جس سے واقعی معاملات درست ہوں ریاستی سطح کی زیادتیوں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے درمیان سرپرست و محافظ کی حیثیت کے حامل ججوں ہی کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جو پورا عدالتی نظام ہی ساکھ کھو بیٹھتا ہے ججوں کو بے خوف ہوکر انصاف کرنے سے روکا جائے تو وکلا سمیت پورے لیگل سسٹم کی قدر ختم ہو جاتی ہے وکلا کے مشترکہ بیان اور اس میں دیئے جانے والے متاثر کن دلائل کے تناظر میں سپریم کورٹ کا از خود نوٹس اور لارجر بنچ کی تشکیل ضرور ان حلقوں کے اطمینان کا باعث ثابت ہو گا جو یہ چاہتے تھے کہ اس معاملے کی خصوصی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یک رکنی انکوائری کمیشن پر اکتفا نہ کیا جائے علاوہ ازیں جسٹس تصدق حسین جیلانی کی کمیشن کی سربراہی سے معذرت اور اس سلسلے میں دی جانےوالی قانونی رائے سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ججز کے خط والا معاملہ سپریم کورٹ ہی نمٹا سکتی ہے اور از خود نوٹس کے بعد یہ معاملہ اب صحیح فورم پر پہنچ چکا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ معاملہ جہاں تک ممکن ہو جلد از جلد نمٹنا چاہیے اور ایسی نظیر قائم کردینی چاہیے کہ مستقبل میں اس طرح کے حالات دوبارہ پیدا نہ ہوں۔ معاشرے کی بقا اور استحکام قانون کی حکمرانی انصاف کی حقیقی فراہمی اور آئینی کی بالادستی پر منحصر ہے قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کر سکتا قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں بلکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقا قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقا کی اکائی ہے انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے انسان نے حالات و واقعات سے عہدہ برآہ ہونے کے لیے عقل و شعور کی مدد سے نئے نئے قوانین بنائے جن کا بنیادی مقصد حیوانی جبلت پر کنٹرول تھا نیز قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشرے کی ضامن ہے ریاست میں حکومتی معاملات کی انجام دہی میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرنے والے تین بڑے ادارے ہوتے ہیں ان میں سے ایک قانون سازی کرنے والا مقننہ ہے، دوسرا مجلس قانون ساز (مقننہ)کے مرتب کردہ قوانین کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور انتظام مملکت چلانے والا ادارہ انتظامیہ
ہے حکومت کا تیسرا بڑا ادارہ عدلیہ ہے جس کا مقصد ریاست میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے حکومت کی اعلی کارکردگی کا دار و مدار اور انحصار نظام عدل پر ہوتا ہے ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان ایک ریاست اور فرد کے حقوق و فرائض کا توازن قائم رکھنا اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا عدلیہ کی حقیقی ذمہ داری ہے انصاف قائم کرنے والی اقوام ہمیشہ سرخرو و بلند رہتی ہیں حضرت امام علی کا قول ہے کوئی معاشرہ ظلم کی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کی بنیاد پر نہیں عدالتیں پسند و نا پسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں اور ان فیصلوں کو تسلیم کرنا حکومت اور تمام اداروں کی ذمہ داری ہوتا ہے حکمران طبقات کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ معاشرے میں جب تک انصاف اور قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا ہمارا معاشرہ بدامنی، بدحالی اور عدم تحفظ کا شکار رہے گا دور جدید سے لے کر آج تک معاشرے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے پروان چڑھے ہیں۔ عدلیہ کے منصفانہ فیصلے ہی معاشرے میں امن و امان یقینی بناسکتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کریں اس کے بغیر ہمہ گیر ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی ملک اس وقت کئی اندرونی و بیرونی بحرانوں سے گزر رہا ہے دہشت گرد پھر سے سراٹھا رہے ہیںسیاسی عدم استحکام آخر حدوں کو چھورہا ہے جو ملک کے لئے کسی سانحے کا بھی پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ تشویشناک صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور قومی ادارے جنہیں ایک ایک کرکے متنازعہ اور بے توقیر کیا جارہا ہے مل بیٹھیں۔ ، تمام اختلافی امور پر ٹھنڈے دل سے ایک دوسرے کا موقف سنیں اور قوم کے اندر مایوسی انتشار اور خلفشار کو روکنے کے لئے اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے دور اندیشانہ فیصلے کریں اسی میں ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی ہے وگرنہ اداروں کے درمیان ٹکراﺅ ملک کو کسی نئے امتحان سے دوچار کرسکتا ہے۔
کالم
سپریم کورٹ کاازخودنوٹس خوش آئند
- by web desk
- اپریل 6, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 385 Views
- 8 مہینے ago