اداریہ کالم

سپریم کورٹ کی وضاحت اور علمائے کرام کی ذمہ داری

سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے حال ہی میں ضمانت کے ایک مقدمے میں دیئے گئے فیصلہ کے بعد ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔اس فیصلے کے تحت قادیانیت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کوتوہین مذہب کے مقدمے میں رہائی ملنے کےساتھ ساتھ اس پر عائد مجرمانہ نوعیت کے الزامات ختم کر دیے گئے تھے۔ اس فیصلے کے آنے کے بعدکئی مذہبی طبقات اس پر شدید تحفظات اور برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ حقائق مسخ کر کے چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف سیاسی وجوہات کی بنیاد پر مہم چلائی جا رہی ہے جو ایک خطرناک رجحان ہے۔جمعرات کو سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔بیان کے مطابق ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم (مسلمان کی تعریف)سے انحراف کیا ہے۔اور یہ بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ مذہب کےخلاف جرائم کے متعلق مجموع تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ختم کرنے کےلئے کہا ہے۔سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے جاری بین مطابق میں واضح کیا گیا ہے یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ حالیہ کیس میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ مقدمے کی ایف آئی آر میں مذکور الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے تو بھی ملزم پر لگائی گئی دفعات کا نہیں بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932 کی دفعہ پانچ کا اطلاق ہوتا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے،عدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جا سکتی ہے لیکن نظرثانی کا آئینی راستہ اختیار کیے بغیر تنقید کے نام پر، یا اس کی آڑ میں، عدلیہ یا ججوں کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے۔ ترجمان کی جانب سے بھجوائی گئی پریس ریلز میں کہا گیا ہے مقدمہ بعنوان مبارک احمد ثانی بنام ریاست میں سپریم کورٹ نے اسلامی احکامات،آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے درخواست گزارملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیاہے ، افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں اور اسلامی احکامات بھلا دیے جاتے ہیں، فیصلے میں قران مجید کی آیات اسی سیاق و سباق میں دی گئی ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس موضوع پر پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے جس سے موجودہ فیصلے میں کوئی انحراف نہیں کیا گیا۔عدالت عظمی نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اپنے فیصلوں میں قرآن مجید کی آیات، خاتم النبینﷺ کی احادیث، خلفائے راشدین کے فیصلوں اور فقہائے کرام کی آرا سے استدلال کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ تمام قوانین کی ایسی تعبیر کی جائے جو احکام اسلام کے مطابق ہو جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 2، دفعہ 31 اور دفعہ 227 اور قانون نفاذ شریعت 1991 کی دفعہ 4 کا تقاضا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول یا کسی آئینی اور قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح اہل علم کی ذمے داری ہے اور اس کےلئے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں ۔ سپریم کورٹ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کسی کو نظرثانی سے نہ پہلے روکا ہے نہ ہی اب روکیں گے۔ آئین کی دفعہ 19میں مذکور اظہار رائے کی آزادی کے حق کی حدود کی خلاف ورزی بھی ہے اور اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس ستون کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر آئین نے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمے داری ڈالی ہے۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں ایک اور مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریما رکس دیئے کہ تمام انبیا، پیغمبروں نے نبی اکرم ﷺکے پیچھے نماز پڑھی ہے ،جس کا مطلب تھا کہ آپ کے بعد نبوت ختم ہوگئی ہے، نبی آخر الزماں کو رحمت للعالمین کہا گیا ہے۔ اب ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رہنمائی لینی ہے، کوئی زمین کسی کی نہیں حاکمیت اللہ کی ہے، جو آئین میں لکھا ہے، قرآن پاک میں انسان کے لیے خلیفہ فی الارض کا لفظ استعمال ہواہے اس لئے انسانوں کو جانوروں اور چرند و پرند کا خیال رکھنا ہے۔اس میںکوئی شک نہیں ہمارے ہاں دینی کے معاملات میں جہاں فہم فراست کا فقدان رہتا ہے وہ جذباتی عنصر کی بھی فراوانی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے بعض حساس معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کرنا ضروی ہوتا ہے۔اس وقت مذہبی جماعتیں شدید ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے یہ فیصلہ مغربی خواہشات کے تابع کیا گیا ہے جس میں قرآن کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ اس فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتی۔اسی طرح جماعت اسلامی نے بھی ردعمل میں کہا ہے کہ یہ کروڑوں پاکستانیوں اور آئین پاکستان کی توہین ہے جسے مذہبی جماعتیں بھولنے نہیں دیں گی۔تمام مذہبی قیادتوں اور علمائے جرائم سے التماس ہے کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر معاملہ فہمی سے کام لیں تاکہ ملک میں انتشار نہ پھیلے اور دنیا کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع بھی نہ ملے۔
رمضان ریلیف پیکج اورہماری ذمہ داری
وفاقی کا بینہ نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر رمضان ریلیف پیکیج2024 کی منظوری دیدی ۔ منظوری گزشتہ روزنگران وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی ۔ ای سی سی نے گذشتہ ہفتے یوٹیلیٹی سٹورز پر رمضان ریلیف پیکچ منظور کیا تھا جو حتمی منظوری کیلئے کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر 7ارب 49کروڑ روپے سے زائد کا پیکج دیا جائے گا،رمضان ریلیف پیکج کا اطلاق 4مارچ سے ہوگا۔ ٹارگیٹڈ سبسڈی کے ذریعے19بنیادی اشیا پر رعایت دی جائے گی۔ آٹا،چینی ،گھی، کوکنگ آئل، چاول ،دالوں پر سبسڈی دی جائے گی ۔ کھجور،بیسن، دودھ ، مشروبات اور مصالحہ جات پر بھی رعایت دی جائے گی۔بی آئی ایس پی مستحقین کو رمضان پیکج کے تحت ٹارگٹڈ سبسڈی ملے گی۔ رمضان ریلیف پیکج کااعلان خوش آئند ہے یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ حکومت نے چندروزقبل ہی رمضان پیکج کی منظوری دی ہے ۔ رمضان المبارک ایک مقدس مہینہ ہے مگر اس میں بدقسمتی سے ذخیرہ اندوزمتحرک ہوجاتے ہیں اور پورے سال کی کمائی کو اس مہینے سے جوڑ لیتے ہیں کیونکہ ہرسال رمضان کی آمد کیساتھ ہی بنیادی اشیائے خورد و نوش بالخصوص پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے جبکہ دنیابھرمیں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں بڑے بڑے سٹورز بہت سی اشیا سستی کر ددی جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے جو رمضا ن المبارک میں لوٹ مار کاسلسلہ شروع کرتے ہیں حالانکہ اسلام نے ذخیرہ اندوزی سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔رمضان المبارک میں حکومت کے ساتھ ساتھ لوگوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں۔ پوری دنیا میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کی جاتی ہیں مگر ہمارے ملک میں رمضان المبارک آنے سے قبل ہی اشیائے خوردونوش کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی جاتی ہے۔کارخانہ دار وں سے لیکر بڑے بڑے سٹورز اور دکاندار اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور رمضان میں غریب آدمی مہنگے داموں اشیائے ضرورت خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ہمارے بڑے بڑے سرمایہ دار،کارخانہ دار اور سپرسٹورز کے مالکان سے گزارش ہے کہ وہ رمضان المبارک میں غریب لوگوں کو خصوصی رعایت پر اشیائے خودونوش دینے کا اعلان کریں۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ رمضان المبارک میں غریب،مسکینوں اور حاجت مندوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کےلئے ایک کھجو ر دینے کا ثواب احد کے پہاڑ کے برابر ہے ۔ رمضان پیکیج میں کے تحت ایڈمنسٹریٹرزکی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ رمضان پیکیج کو پورے ملک میں یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیائے خوردونوش کی فراہمی کو یقینی بنائیں ۔ غریب لوگ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں یوٹیلیٹی سٹورز کا رخ کرتے ہیں اورسٹورز پر رعایتی اشیا دستیاب نہ ہوں تو خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اعلیٰ حکام مقدس مہینے میں خود سٹورز پر اشیائے خوردونوش کی فراہمی کی نگرانی کریں ۔چند اقدامات ہیں جن کی بدولت اس صورتحال پر کچھ حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ عوام کو چاہیے وہ سادگی اختیار کرے اور طلب کو بلاوجہ نہیں بڑھانا چاہیے جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سستے بازار بنائے اور قیمتوں پر عملدرآمد کروا ئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے