پاکستان ایک بار پھر قدرتی آفت کی زد میں ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ہونیوالی شدید بارشوں کے نتیجے میں آنیوالے تباہ کن سیلاب نے نہ صرف انسانی جانوں کا زیاں کیا بلکہ معیشت، زراعت، بنیادی ڈھانچے اور روزمرہ زندگی کو بھی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق نقصانات کا حجم 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف فوری اقدامات کی متقاضی ہے بلکہ ایک جامع، مربوط اور دور رس پالیسی فریم ورک کا تقاضا بھی کرتی ہے۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے متاثرینِ سیلاب کیلئے جس ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے، وہ وقتی ریلیف کے ساتھ ساتھ کئی پہلوں سے حوصلہ افزا بھی ہے۔ بجلی کے بلوں کی معافی، مالی امداد، اور زراعت و صنعتی شعبے کو سہولتیں دینا ایسے فیصلے ہیں جن سے فوری ریلیف ضرور حاصل ہوگا، تاہم اصل چیلنج ان اقدامات پر شفاف، منظم اور موثر عملدرآمد ہے۔متاثرہ گھریلو صارفین کے اگست کے بجلی کے بل مکمل طور پر معاف کیے جا چکے ہیں، جبکہ صنعتی، زرعی اور کمرشل صارفین کو بلوں کی ادائیگی موخر کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ جنہوں نے بل پہلے ہی ادا کر دیے، انہیں اگلے ماہ کے بلوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ جاں بحق افراد کے لواحقین کو فی کس 20 لاکھ روپے کی مالی امداد دی جا رہی ہے، اور مکمل طور پر تباہ شدہ گھروں کی تعمیر کیلئے بھی معاوضہ فراہم کیا جا ئیگا۔ مویشیوں کے نقصانات کے ازالے کیلئے بھی امداد کا اعلان کیا گیا ہے، جس کی تفصیلات آئندہ دنوں میں واضح ہوں گی۔حکومت نے ملک بھر میں زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے تاکہ متاثرہ زمینوں کی بحالی، بیج، کھاد، زرعی مشینری، اور بجلی کے بلوں کی معافی جیسی سہولتوں کے ذریعے کسانوں کو دوبارہ کھڑا ہونے میں مدد دی جا سکے۔ اس ایمرجنسی کا مقصد صرف فصلوں کی تیاری نہیں بلکہ زرعی معیشت کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔قیمتوں کے استحکام، ذخیرہ اندوزی کی روک تھام اور منافع خوروں پر کڑی نظر رکھنا بھی حکومت کے اقدامات کا حصہ ہے، تاکہ کسان کو اس کی محنت کا صحیح معاوضہ ملے اور منڈی میں استحکام پیدا ہو۔ یہ فیصلے نہ صرف کسانوں بلکہ پوری دیہی معیشت کو سہارا دینے کی سمت ایک مثبت قدم ہیں۔خوش آئند امر یہ ہے کہ اس بار حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود انحصاری کا راستہ چنا ہے۔ 2022کے سیلاب میں عالمی برادری نے وعدوں کے باوجود پاکستان کی فوری مدد نہیں کی لہٰذا اب یہی وقت ہے کہ ہم اپنے وسائل،صلاحیتوں اور مقامی استعداد پر بھروسہ کریں۔ آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں حکومت نے ماحولیاتی ایمرجنسی کو اجاگر کیا ہے اور امدادی اقدامات کو ان مذاکرات کا حصہ بنایا گیا ہے۔تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات وقتی نوعیت کے ہیں۔ مکمل بحالی کیلئے طویل المدتی، مربوط اور شفاف پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ماضی کے تجربات، بالخصوص 2010 اور 2022 کے سیلابوں کے بعد متاثرین کی بحالی کی رفتار، موجودہ نظام کی کمزوریوں کو عیاں کرتی ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ آیا ہم 2025 کے سیلاب زدگان کو بروقت بحال کر پائیں گے یا وہ بھی وعدوں اور فائلوں کے نیچے دب جائیں گے؟اس تناظر میں حکومت کو درج ذیل نکات پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا:متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر گھروں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر،کسانوں کو بلا سود قرضے، مفت بیج، کھاد اور زرعی مشینری کی فراہمی،نقصانات کے شفاف اور ڈیجیٹل سروے کے ذریعے اہل افراد تک براہ راست امداد کی فراہمی متبادل روزگار کے مواقع، تاکہ متاثرین صرف امداد پر انحصار نہ کریں ، انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے وفاق، صوبے اور مقامی حکومتوں کے درمیان مثر ہم آہنگی۔یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ حکومت کے ان اقدامات سے ریاست پر مالی دبا بڑھے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات میں کٹوتی کرے، فضول سبسڈیز پر نظرثانی کرے، اور محصولات کے نظام کو مثر بنائے۔ مالی نظم و ضبط کے بغیر نہ کوئی ریلیف پائیدار ہو سکتا ہے، نہ ہی بحالی کا عمل مکمل۔ نجی شعبے کی خاموشی افسوسناک اور لمح فکریہ ہے۔ اب تک کسی بڑے صنعت کار، کارپوریٹ ادارے یا کاروباری طبقے کی جانب سے متاثرین کے لیے کوئی واضح اور منظم امدادی پیکج سامنے نہیں آیا۔ اگر ہم خود کو ایک ذمہ دار معاشرہ سمجھتے ہیں، تو یہ صرف حکومت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر فرد، ادارے اور طبقے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔اس سال کا سیلاب ایک بار پھر یہ پیغام دے گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی آنے والا خطرہ نہیں، بلکہ ایک موجودہ اور واضح حقیقت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ڈیموں کی تعمیر، ندی نالوں کی صفائی، اربن پلاننگ اور موسمیاتی انتباہی نظاموں پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو مستقبل میں تباہی کے دائرے مزید وسیع ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے ماضی کی تباہ کاریوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اب مزید غفلت کی گنجائش نہیں رہی۔یہ وقت صرف آزمائش کا نہیں بلکہ اصلاح کا بھی ہے۔ حکومت کی خود انحصاری کی حکمت عملی قابل تحسین ہے، مگر اس میں شفافیت، تدبر، اور مستقل مزاجی بھی درکار ہے۔ اگر ہم نے اس موقع پر متاثرین کو صرف وعدوں اور دعووں تک محدود رکھا، تو کل تاریخ ہم سے یہ سوال ضرور کرے گی: آپ نے کیا کیا؟آج ہمیں خود کو ایک قوم ثابت کرنا ہے ایک ایسی قوم، جو مصیبت میں متحد ہو، اور عمل سے جواب دے، وعدوں سے نہیں۔