صفائی انسانی تہذیب کی بنیاد ہے۔ انسانی معاشروں کی تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ جہاں صفائی کا شعور تھا وہاں صحت، خوشحالی اور معاشرتی استحکام بھی موجود رہا۔ جب صفائی کو نظرانداز کیا گیا تو وہاں بیماریاں، بدبودار ماحول، ذہنی و جسمانی پریشانیوں اور معاشرتی بگاڑ کو فروغ ملا۔ صفائی صرف ذاتی جسم، لباس یا گھر تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا دائرہ گلی، محلے، بازار، سڑکوں، کھیتوں اور شہروں تک پھیلتا ہے۔ صفائی کی ذمہ داری صرف خاکروبوں پر ڈال دینا حقیقت سے فرار کے مترادف ہے۔ ہر شخص اپنی روزمرہ زندگی میں صفائی کے اصولوں کو اپناتا ہے تو یہ عمل اجتماعی کردار میں تبدیل ہوکر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔انسانی جسم کا مدافعتی نظام پیچیدہ اور حساس ہے۔ میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور کیمیائی آلودگی جسم کے اندر داخل ہو کر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ یہ مائیکرو آرگنزم کھلی فضا، بے احتیاطی سے پھینکے گئے کوڑے کرکٹ، آلودہ گلیوں، نالیوں، بدبودار سڑکوں اور گندے بازاروں سے تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اگر شہری علاقوں میں صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ جراثیم ہوا کے ذریعے، ہاتھوں کے لمس سے، کھانے پینے کی اشیا کے ذریعے یا سانس کے راستے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ صفائی کی کمی کا براہ راست تعلق بیماریوں جیسے ٹائیفائیڈ، ہیضہ، پیچش، ڈینگی، ملیریا، الرجی، دمہ، جلدی امراض اور فنگل انفیکشن سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ بیماریاں نہ صرف صحت کو متاثر کرتی ہیں بلکہ معاشی نقصان کا سبب بھی بنتی ہیں۔ علاج پر خرچ ہونے والے وسائل گھریلو معاشیات کو کمزور کرتے ہیں اور سماجی ترقی کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ صفائی کا تصور محض بیماریوں سے بچا تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی ذہن اور شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ صاف ستھرا ماحول ذہنی سکون، مثبت طرزِ فکر، بہتر فیصلہ سازی، اعتماد اور تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔ گندگی، بدبو اور آلودگی انسان کے اندر منفی جذبات جیسے چڑچڑاپن، بے چینی، جھنجھلاہٹ اور ذہنی تھکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ جب لوگ روزانہ گندی گلیوں اور افراتفری کے ماحول سے گزرتے ہیں تو ان کے اندر سماجی ذمہ داری کا احساس کم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے ماحول کو بہتر بنانے کے بجائے اسے مزید گندہ کرنے لگتے ہیں جبکہ صاف ماحول انسان کو زندگی کی تازگی کا احساس دلاتا ہے اور اسے اپنی ذات اور اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتر بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صفائی کا ایک مضبوط نظام نظر آتا ہے۔ وہاں کے لوگ نہ صرف اپنے گھروں کو صاف رکھتے ہیں بلکہ گلی، محلے اور سڑکوں کو بھی صاف رکھنے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ وہاں صفائی محض ایک عادت نہیں بلکہ سماجی اخلاقیات کا حصہ بن چکی ہے۔ خاکسار نے جن ممالک کا دورہ کیا وہاں صاف ستھری گلیاں، سجیلے بازار، صاف سڑکیں، ترتیب سے بنے ہوئے فٹ پاتھ، مناسب جگہوں پر لگے ڈسٹ بن، وقت پر اٹھایا جانے والا کوڑا، سائنسی بنیادوں پر قائم ری سائیکلنگ یونٹ اور صفائی کے لیے جدید ترین نظام دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ ترقی و صفائی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ وہاں شہریوں کو بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ کوڑا زمین پر نہیں پھینکنا بلکہ کچرے کے مخصوص ڈبے میں ڈالنا ہے۔ وہاں کے بچے غیر معمولی حد تک ماحول سے محبت اور صفائی کا شعور رکھتے ہیں۔
جب انسان کو تعلیمی اور سماجی سطح پر صفائی کی اہمیت سمجھا دی جائے تو وہ اسے زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے۔اسلام نے بھی صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ مذہبی اور سماجی تعلیمات میں جسم، لباس، گھر، راستوں، مساجد، محلوں اور شہروں کی صفائی پر زور دیا گیا ہے۔ صفائی کا پیغام روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی اور سماجی پاکیزگی کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم مذہبی تعلیمات سے آگاہ ہونے کے باوجود صفائی کے اجتماعی نظام کو اپنا نہیں سکے۔ ہمارے ملک میں چند پوش علاقوں کے علاوہ عام بازاروں، گلیوں اور سڑکوں پر گندگی عام دکھائی دیتی ہے۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینک دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ نالیوں کا بند ہونا، بدبودار پانی کا بہنا، گندگی کے ڈھیر، بغیر ڈھکن کے گٹر، آوارہ جانوروں کا میل جول، آلودہ فضا اور ہر طرف پھیلے ہوئے پلاسٹک کے تھیلے معاشرتی بے حسی کا ثبوت ہے، اس کے برعکس شہری جب ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں تو وہ اپنے پنڈ اور شہر کے ماحول کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ میڈیکل سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ صفائی نہ صرف بیماریوں سے بچاتی ہے بلکہ انسانی زندگی کو طویل اور صحت مند بناتی ہے۔ صاف فضا میں سانس لینا پھیپھڑوں کے لیے موثر ہے۔ آلودہ ماحول میں رہنے والے افراد دمہ، دائمی کھانسی، الرجی، ہارٹ ڈیزیز اور یہاں تک کہ کینسر جیسی بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ صفائی کے لیے شعور پیدا کرنا ضروری ہے۔ شعور تعلیم اور معاشرتی تربیت سے آتا ہے۔ والدین اگر بچوں کو بچپن سے کلیننیس ڈسپلن سکھائیں، اسکول انتظامیہ اس موضوع پر باقاعدہ آگاہی پروگرام کرے، مساجد میں خطبات کے ذریعے صفائی کا پیغام دیا جائے، میڈیا مہمات چلائے اور حکومت موثر قوانین بنائے تو معاشرہ تیزی سے بہتر ہوسکتا ہے۔ صفائی کا شعور ذاتی ذمہ داری سے شروع ہو کر اجتماعی کردار میں تبدیل ہوتا ہے۔ جب لوگ اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ گلی، محلے، آس پاس کے راستوں اور بازاروں کو صاف رکھنا شروع کریں گے تو آئندہ نسلیں ایک صحت مند اور خوبصورت ماحول میں پروان چڑھیں گی۔ترقی یافتہ معاشرے کسی معجزے سے نہیں بنتے بلکہ وہ شہریوں کی ذمہ داری اور شعور سے بنتے ہیں۔ صفائی کا آغاز انسان کے دل و دماغ سے ہوتا ہے۔ جب انسان اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنے وجود کا حصہ سمجھنے لگے تو وہ اسے گندہ نہیں ہونے دیتا۔ ایسا معاشرہ صحت مند، مضبوط، خوشحال اور مہذب شمار ہوتا ہے۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صفائی ترقی اور تبدیلی کا پہلا قدم ہے۔
صفائی صحت کی ضامن اور معاشرتی وقار کی علامت ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ، خوبصورت اور صحت مند بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اجتماعی سطح پر صفائی کے طرزِ فکر کو اپنانا ہوگا۔ گھروں، گلیوں، سڑکوں، بازاروں اور شہروں کو صاف رکھنا صرف ایک ضرورت نہیں بلکہ ایک قومی فرض ہے۔ معاشرے وہی ترقی کرتے ہیں جن کے شہری ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں۔ صفائی کا شعور آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دیتا ہے۔ یہ عمل معاشرے کو صحت مند، مضبوط اور مہذب بناتا ہے۔ ہمیں آج سے، اسی لمحے سے اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تاکہ ہمارا ملک صاف، صحت مند اور خوبصورت بن سکے۔اگر انسان اپنے ماحول کو صاف رکھے تو نہ صرف بیماریوں سے بچتا ہے بلکہ ایک مہذب معاشرے کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ صفائی انسان کی تربیت اور شعور کا آئینہ ہے۔ یہی شعور اگر ہم سب میں بیدار ہوجائے تو گلیاں، محلے، سڑکیں اور شہر سب صاف ستھرے نظر آئیں گے۔ صحت مند زندگی، خوبصورت ماحول اور روشن مستقبل اسی صفائی کے شعور سے جڑے ہیں۔
کالم
صفائی اور طویل زندگی ۔۔۔!
- by web desk
- دسمبر 6, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 55 Views
- 3 ہفتے ago

