(گزشتہ سے پیوستہ)
1979 میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑ میں تو جنرل ضیا الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچی سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کر نی چاہیے ۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو بھی قبول نہیں کیا ، افغان جنگجو قوم ہے ۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کیخلاف برسر پیکار رہتی آئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گی اور مختلف قبائل یا گروہ آپس میں لڑتے رہے ۔ جنرل ضیا الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں جب اشترا کی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیا الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر بیتاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہیے۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو بھی قبول نہیں کیا ، افغان جنگ جو قوم ہے۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کیخلاف برسر پیکار رہتی آئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گی ۔ جنرل ضیا الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں کو افغان مجاہدین تک براہ راست رسائی سے رو کنا افغان پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ پاکستان ہی افغانستان میں مجاہدین کی مدد کرتا رہا۔ امریکیوں کے ساتھ جو بھی معاملات ملے کیے جاتے وہ پاکستان ہی ملے کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا اب جنرل ضیا موافق پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے خصوصا عالم عرب میں وہ ایک مسلمان جرنیل ہونے کے باعث ہیرو کے طور پر پسند کیے جاتے اور عام لوگ ان سے والہانہ محبت بھرے جذبات رکھتے تھے ۔ جنرل ضیا الحق کی افغان جنگ میں مدد کی پالیسی نے امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا تھا جس سے بھارت تشویش میں بہتا تھا بھارت کے بے پناہ شور شرابے کے باوجود پاکستان نے اپنے معاملہ فہم زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالار جنرل ضیا الحق کی قیادت میں اپنے ایسی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھا یا ان کے دور پاکستان نے کولڈنٹ کر لیا تھا اور چاٹی کی انتل بھی انہی کے دور میں تیار کی گئی کسی نے بھارت کی آدو بکا ، وادیئے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ جنرل ضیا الحق خاموش رہ کر پروقار انداز میں اپنی مدبرانہ سوئی اور صلاحیت سے اپنے ملک کیلئے کام کرتے رہے اور جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے رہے صدر ضیا الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدا نخواستہ روس کابل ” کو فتح کر لیتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کیلیے قیام پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں 17 اگست 1988 کے شہدا بہاول پور نے اپنے دل رنگ ہو سے ارض پاکستان کی آب …. یاری کی ۔ جنرل ضیا الحق اپنے رفقا کار کے ساتھ ایک گہری سازش کے ذریعے فضائی حادثے میں شہید ہوئے پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹادینا بہت بڑا قومی سانحہ تھا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں جرنیلوں کا ایک ساتھ ایک ہی جہاز میں سوار ہونا خلاف ضابطہ تھا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین کو شکست دینے کیلئے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کوئی اہلکا رافغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا ۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف یہ صرف افغان مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہی آئی اے کی نیہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اس آدمی کا نا محمد ضیا احق تھا روی جارحیت کیخلاف افغانستان کی آزادی کیلئے جد و جہد میں افغانوں کی مدد اور 35لاکھ سے زائد مہاجرین کو خوش دلی سے پناہ دے کر جنرل ضیا الحق نے جس ملی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور یہ ذمہ داری جس احسن طریقے سے نبھائی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے اور اس حوالے سے جنرل محمد ضیا الحق شہید کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا افغان جنگ میں جنرل ضیا موافق اور ان کے رفقائے کار کے کردار حکمت عملی ، سیاسی اور حربی دانش مندی تدبیر اور تزویر کو بھی بھلایا نہ جائے گا۔ شہید صدر نے بطور فوجی سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاست دان ، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ دنیا نے انہیں مستقل مزاجی اور مکمل ایک سوئی سے ایک بڑی سپر پاور کے مقابلے میں افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیر مقام تھا اور خطے کی معروضی صورت حال کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا تھا ۔ اس وقت تک پاکستان اپنی قوت کی شناخت بھی نہ رکھتا تھا ۔ افغان قوم کو روس کے پنجہ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کی آزادی کی شمع روشن کرنے کا کارنامہ ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ جنرل محمد ضیا الحق اور ان کے اس جنگ میں فوجی کمانڈروں کو اس کا کریڈٹ نہ د بنانا انصافی ہوگی۔افغانستان کی روسی جارحیت سے آزادی موجود دعہد کا ایالا زوال واقعہ ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں مگر یہ جنگ اور فتح جنیوا معاہدے کی خلاف میں لپیٹ دی گئی اور یہی امریکہ کی سب سے بڑی کامیابی تھی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صدر جنرل محمد ضیا الحق ہی تھے مشہور تجزیہ کار بروس ریدل لکھتا ہے کہ سویت یونین کو شکست دینے کیلئے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کوئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوایا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سوویت یونین کیخلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی ۔ نہ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اس آدمی کا نام محمد ضیا الحق تھا جنیوا مجھوتے کے بعد کسی اخبار نویس نے جنرل ضیا الحق سے استفسار کیا کہ اب جبکہ روی فوجیوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی چندی دونوں کی بات ہے تو آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ۔ جس کا جواب جنرل صاحب نے یہ دیا کہ میری اس وقت سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں پلی چرخی کی جامع مسجد میں دورکعت نفل شکرانہ ادا کروں لیکن شہادت نے ان کو کہ مہلت نہ دی میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اپنے اسالہ طویل اقتدار کے دوران انہوں نے جناب بھٹو کے متعلق صرف ایک مرتبہ اتنا کہا تھا کہ مسٹر بھٹو نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔ میں ضیا الحق کے ناقدین اور مخالفین سے درخواست کرتا ہوں کہ اس ایک مختصر سے فقرے کے علاوہ کوئی اور واقع یا موقع ان کے علم میں ہو تو مجھے ضرور مطلع کریں ۔ جنرل ضیا الق اپنے تمام دکھ در داپنے سینے میں کھیلنے اور سنبھالنے کا ہنر جانتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی سے کسی کے متعلق کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی ۔(…ختم شد)
کالم
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ(3)
- by web desk
- اگست 19, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 28 Views
- 3 دن ago