کالم

ضمےر کا بوجھ

معزز قائےن کمشنر راولپنڈی ڈو ےژن لےاقت علی چٹھہ کا ضمےر اچانک جاگتا ہے اور ان کا اعترافی بےان سامنے آتا ہے کہ ان سے انتخابات مےں دھاندلی کروائی گئی ہے اور ضمےر کے بوجھ تلے وہ خود کشی کا ارادہ بھی کرتے ہےں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس جرم کی پاداش مےں کچہری چوک مےں سزائے موت دی جائے ۔انہوں نے دھاندلی مےں الےکشن کمےشن آف پاکستان ،چےف الےکشن کمشنر اور چےف جسٹس آف پاکستان کے ملوث ہونے کا بھی الزام عائد کےا ۔اس پر چےف جسٹس قاضی فائز عےسیٰ نے مےڈےا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا الزامات تو کوئی بھی لگا سکتا ہے ،الزام لگانا آپ کا حق ہے ،ثبوت بھی تو دےں۔چلو ضمےر تو جاگا اگرچہ کچھ دنوں کے بعدہی۔کچھ اہل دانش ان کے بےان کو الےکشن کالعدم کروانے کی اےک سازش قرار دے رہے ہےں ۔چلو لےاقت علی چٹھہ نے ضمےر کے بوجھ کو اتار تو دےا ۔ بوجھ تو اےک اضافی شے ہے اور اضافی شے کو بوجھ نہ سمجھا جائے اور نہ ہی محسوس کےا جائے اسے اتارنے کی غلطی کےسے کی جا سکتی ہے ۔کہتے ہےں کہ انسان سے کوئی غلط کام سرزد ہونے پر اس کا ضمےر اسے لعنت ملامت ضرور کرتا ہے اور اندر سے آواز آتی ہے کہ ےہ کام غلط ہے۔راقم کے خےال مےں تو ہر وہ کام جسے کر کے تمہارا ضمےر مطمئن ہو مذہب ہے ۔ بعض لوگوں کے ضمےر سو جاتے ہےں اور کبھی نہ کبھی بےدار ہو جاتے ہےں لےکن بعض اےسے بھی ہےں جن کے ضمےر مردہ ہو چکے ہوتے ہےں ،اےسے ضمےر علاج معالجے سے بھی نہےں جاگتے۔کئی لوگوں کے ضمےر قبر کنارے پہنچنے پر بےداری کی سعی ضرور کرتے ہےں لےکن صاحب ضمےر اسے خوابےدہ رکھنے مےں ہی عافےت سمجھتا ہے۔بہر حال انہوں نے زندگی مےںجتنے غلط کام کئے ، زندگی کی کتاب کاہر ورق کھلتا جاتا ہے اور آنکھوں کے سامنے سب مناظر آتے جاتے ہےں ۔مختلف افراد مےں ہر فرد کا اپنا اپنا ضمےر ہوتا ہے اسی طرح مختلف اقوام اور ممالک کے بھی اپنے اپنے ضمےر ہےں ۔عالمی ضمےر کے متعلق اکثر سنتے ہےں ۔کےا اس نام کی کوئی چےز دنےا مےں پائی جاتی ہے ؟کےا وہ اسم ہے جس کا کوئی مسمی نہےں ۔ےہ سوالات اٹھتے اور ہمےشہ جواب سے محروم رہتے ہےں ۔ ضمےر کا دوسرے لفظوں مےں مطلب انا ، خود داری، خودی اور خود آگاہی ہی لےا جا سکتا ہے ۔ ضمےر نام کی جنس ہمارے ہاں ناےاب نہےں تو کمےاب ضرور ہے ۔ضمےر کا آسان لفظوں مےں مفہوم غےرت لےا جا سکتا ہے لےکن ہمارے ہاں غےرت کی تعرےف بھی اپنی اپنی ہے بدےں سبب اسے خود ساختہ ہی قرار دےا جا سکتا ہے ۔اےک کے نزدےک غےرت کا جو مفہوم ہے دوسرے کے نزدےک اس کے بالکل برعکس ہے۔اسی کے کارن عوام امتحانی کےفےت سے دوچار، شش و پنج اور تذبذب کا شکار ہےں کہ کس مفہوم کو درست اور حتمی قرار دےا جائے ۔اگر اےک ہی ملک کے باسےوں نے عزت و غےرت کے اپنے اپنے اصول و ضوابط وضع کر رکھے ہوں اور اپنا اپنا لائحہ عمل رکھتے ہو ں تو کےا کےا جائے۔بعض اوقات عزت و غےرت کا انجام قبائلی معاشرت مےں قتل و غارت پر منتج ہوتا ہے اور انا و غےرت کی ےہ دشمنی دہائےوں تک اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی رہتی ہے اور کئی نسلوں کاخاتمہ غےرت کے نام پر اور اسے قائم رکھنے پر ہو جاتا ہے۔اگلے زمانے اور پرانی وضع کے لوگ غےرت و حمےت کی تعرےف کچھ لےکن روشن خےال عرےانی کو جاری رکھنا غےرت اور ترقی کی علامت گردانتے ہےں اور ےہ اےسی ترقی ہے جس پر کوئی محنت اور زر مبادلہ خرچ نہےں کرنا پڑتا ،ےہ ہمےں مفت مےں مل رہی ہے ۔مفت کی ترقی کو حاصل نہ کرنا بھی کم عقلی کی علامت ہے۔جب سےاست کا مقصد حصول مال و دولت ہی ہو تو پھر اپنی جماعت سے وفاداری کی توقع عبث ہے۔جو زےادہ مرتبہ ،عہدہ ،مراعات کا لالچ دے گا با ضمےر اسی جماعت مےں ہی شامل ہوں گے ۔جو زےادہ بولی دے گا اپنا ضمےر ان کے حوالے کرنا ان کا حق بنتا ہے۔
ضمےر زر کے ترازو مےں تل رہے ہےں ےہاں
کہاں کا زہد و ورع کہاں کا علم و ہنر
دنےا مےں آسودہ زندگی گزارنے کےلئے انسان نے ابتدائے آفرےنش سے پےشوں کے انتخاب کی ضرورت محسوس کی اور اپنے فہم اور عقل و بصےرت کی روشنی مےں انہےں اپناےا ۔مختلف پےشوں مےں سے اےک پےشہ اےسا بھی ہے جس مےں ظاہراً کوئی شمولےت تسلےم نہےں کرتا لےکن بڑے بڑے نامی اس پےشے سے منسلک ہےں کےونکہ ےہ اےک نفع بخش پےشہ ہے ۔جس نے بھی اس پےشے کو اپناےا وہ راتوں رات کہےں کا کہےں پہنچ گےا اور بڑے بڑے رےس کے کھلاڑےوں کو بھی اپنی گرد تک نہ پہنچنے دےا ۔قارئےن پہنچ گئے ہوں گے کہ اس پےشے کا نام ہی ضمےر فروشی ہے ۔کئی اےسے بھی خوش بخت ہےں جنہوں نے اپنی پوری زندگےاں اسی پےشے کےلئے وقف رکھےں ۔ہمارے کئی سےاستدان تو اس شعبے کے ماہر ہےں جنہوں نے کبھی بھی اپنے سےاسی ضمےر کو جگانے کی ضرورت محسوس نہےں کی۔
ترے ضمےر کو تےرے خلاف مےں نے کےا
گناہ تجھ سے ہوا اعتراف مےں نے کےا
جب کسی سےاستدان سے سوال کرنے والے نے پوچھا کہ جناب آپ ہمےشہ اپنی پارٹےاں بدلتے رہتے ہےں آپ کے اندر ضمےر نام کی بھی کوئی چےز ہے تو انہوں نے جواب دےا کہ جناب کو غلط فہمی ہوئی ہے مےں ضمےر فروش نہےں ہوں مےں نے کبھی پارٹی تبدےل نہےں کی ۔ہمےشہ اےک پارٹی کے زےر ساےہ ہی زندگی بسر کی ۔سوال کرنے والے نے استفسار کےا تو جناب کی پارٹی کونسی ہے ؟ انہوں نے جواب دےا کہ ہمےشہ برسر اقتدار پارٹی ہی مےری پارٹی ہوتی ہے ۔آپ اےمان سے بتائےں کہ آپ نے مجھے کبھی حزب اختلاف مےں بھی بےٹھے پاےا ہے۔لہٰذا واقعی ان کی کہی بات سچ پر گواہ تھی کےونکہ انہوں نے ہمےشہ برسر اقتدار پارٹی مےں ہی پڑاﺅ کےا اور ہمےشہ سےاسی منافقت ،بے اصولی اور رنگ بدلنے کے خلاف رہے۔وطن عزےز مےں ووٹ کے مدعی ہمےشہ بڑے بڑے بےنرز آوےزاں کر کے ےہی پرچار کرتے نظر آئے کہ اپنے ضمےر کا سودا ہر گز نہ کرےں ،اپنی انا کو مجروح نہ ہونے دےں ،ضمےر بےچنے والوں کو ووٹ ہر گز نہ دےں لےکن اس حمام مےں کوئی اےک ننگا ہو تو ہم بات کرےں ڈھونڈنے سے بھی اس درناےاب کا ملنا مشکل ہے جو ضمےر کے ہمرکاب اس قےمتی شے کو اپنے دامن مےں سمےٹے بےٹھا ہو ۔ضمےر فروشی ہمارے سماج کی عام حقےقت ہے لےکن اس کا اعتراف کرنے کی کسی مےں جرا¿ت نہےں ۔رےاض شاہد نے اپنی اےک فلم نظم کےلئے اےک مکالمہ لکھا تھا جس مےں اداکار کہتا ہے کہ تنہائی مےں شےشہ دےکھنے سے انسان کا ضمےر جاگ اٹھتا ہے شائد اسی لئے سےاستدان اےک دوسرے کو ہدف تنقےد بناتے ہوئے شےشہ دےکھنے کی تلقےن کرتے ہےں ۔جب ہم غور کرتے ہےں کہ ضمےر نامی چےز کس بلا کا نام ہے اور کسی نتےجے پر پہنچنے سے محروم رہتے ہےں اےسے مےں تارےخ کا مطالعہ مدد گار ثابت ہوتا ہے اور کبھی مےر جعفر اورکبھی مےر صادق کے روپ مےں ظاہر ہو کر ہمےں باخبر کرتے ہےں کہ ضمےر فروشی اور اس کی حقےقت کےا ہے ؟ضمےر فروشی بھی آگے چل کر کئی قسموں مےں تقسےم ہو جاتی ہے ۔کالم کی تنگ دامنی سد راہ ہے کہ ہر اےک کا ذکر کےا جائے ۔چند سے پردہ اٹھانے کی سعی کی ہے جےسے قومی ضمےر فروش ،ہم خےال ضمےر فروش،کروڑ پتی ضمےر فروش،پےدائشی ضمےر فروش،مستقل ضمےر فروش ،مجبوراً ضمےر فروش وغےرہ۔ےہ اندازہ لگانا اور فےصلہ کرنا امتحانی مرحلہ ہے کہ ضمےر فروشی کو ماپنے کےلئے کونسا فارمولا اپلائی کےا جائے کےونکہ مختلف اقوام اور افراد کے نزدےک ضمےر فروشی کے پےمانے مختلف ہےں ۔اگر اےک طبقہ اےک فےصلے کو ضمےر فروشی کے دائرے مےں داخل کرتا ہے تو اسی فےصلے کو دوسرا طبقہ ملک و قوم کے بہترےن مفاد مےں شمار کرتا ہے ۔ہم ہمےشہ ضمےر فروشوں کے ہاتھوں زوال پذےر ہوئے اور اقوام عالم مےں ذلےل و خوار ہوئے۔
آگ دی صےاد نے جب مےرے آشےانے کو
جن پہ تکےہ تھا وہی پتے ہوا دےنے لگے
معزز قارئےن غربت عےب نہےں بے ضمےر ہونا غرےبی ہے ۔ہمارے ہاں اےسے باضمےر ڈھونڈے سے نہےں ملتے جو اس شعر کی تصوےر بن سکےں
جب کبھی ضمےر کے سودے کے بات ہو
ڈٹ جاﺅتم حسےن کے انکار کی طرح
ضمےر بہر حال ضمےر ہے اسے خوف خدا سے زندہ رکھا جائے ےا ہوس دنےا سے مردہ کر دےا جائے ۔ قےصر بارہوی کی اےک مسدس
مردہ ہے خواہشات مےں ڈوبا ہوا ضمےر
لعنت ہے زر کی دھوپ مےں پگھلا ہوا ضمےر
تذلےل زندگی ہے خرےدا ہوا ضمےر
پےمانہ ےزےد ہے بےچا ہوا ضمےر
آپ آن مےں حےات کا رخ موڑ دےجئے
تارےکےوں کو حر کی طرح چھوڑ دےجئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے