عمران خان کی رہائی کیلئے تحریک کا آغاز ہوگیا ہے 90 دن کل رات سے شروع ہوگئے ہیں اور ان 90 دنوں میں تحریک عروج پر لے جاکر آر یا پار کریں گے KPKکے وزیر ِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی یہ بڑھکیں اور دعوے اپنی جگہ پر لیکن سوال یہ پیداہوتاہے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کیلئے تحریک کیسے اور کب چلائی جائے گی؟ کیا حکمت عملی ہے ؟کیا منصوبہ بندی؟ ہے سوشل میڈیا پر PTI کے حامیوں نے گنڈاپور کے بعض فیصلوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اْن پر عدم اعتماد کی فضا پیدا کر دی ہے اس ضمن میں چندحقائق سامنے آئے ہیں قابل اعتماد سرکاری ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ لاہور کا سفر اختیارکرنے سے قبل تحریک انصاف کے ”بڑوں” نے باضابطہ طور پر پنجاب کی انتظامیہ کوآگاہ کردیاتھا کہ وہ کسی ہنگامے یا احتجاج کے لئے نہیں آرہے بلکہ یہ ”ہائی پروفائل پکنک ٹور” ہوگا اس سلسلے میں میزبان حکومت کو ٹھوس ضمانتیں فراہم کی گئی تھیں یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد سے راولپنڈی کے راستے جی ٹی روڈ کو پورے سفر میں صوبائی انتظامیہ نے کسی مقام پر قافلے کی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی قافلے میں شامل افراد نے کسی جگہ پڑائو کرنے یا ہنگامہ آرائی کی کوشش کی اس پورے سفرمیں کوئی ایک گاڑی یا نیا شخص اس قافلے میں شامل نہیں ہو ا نہ کسی شہر میں اس قافلے کااستقبال ہوا پارٹی کی لیڈرشپ کواس پر ملال بھی ہے کہ اس سفر میں کسی بھی جگہ قافلے کی آئو بھگت نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کاخیرمقدم کیاگیا سیاسی رہنمائوں کے ایسے قافلے اور جلوس جب اپنے خیر خواہ علاقوں میں سے گزرتے ہیں تواس پر گلپاشی ہوتی ہے ساڑھے تین سو کلومیٹر کے سفر میں قافلہ کہیں نہیں رکاایسے لگتاتھا جیسے قافلہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو مزے کی بات یہ ہے کہ قافلے کے شرکاء کی ”خاطر مدارت” لاہور کے ایک فارم ہائوس میں کی گئی یہ لگتاہی نہیں تھا جیسے کوئی سیاسی موومنٹ ہو یا احتجاجی ریلی یا جلسے کا تاثر بھی نہیں ملا ان حالات میں90 دن تو کیا90 سال میںبھی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے خود پی ٹی ائی کے حلقے علی امین گنڈاپور کی پریس کانفرنس سے خاصے مایوس اور دلبرداشتہ نظر آتے ہیں اور وہ انہی خدشات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ان کیفیات میں پیدا ہونے ایک فطری سی بات ہے بانی PTI عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو سخت پیغام دیا ہے کہ ہم جیلوں میں بیٹھے ہیں آپ اختلافات پیدا کررہے ہیں، لاہور اجلاس کو لیکر پارٹی میں جان بوجھ کر اختلاف پیدا کیا جارہا ہے، ذاتی اختلافات ختم کریں اور سارا فوکس تحریک پر رکھیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر اپنی بہنوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی نے دو پیغامات دیتے ہوئے کہا 300 پارلیمینٹیرینز کے لاہو جانے پر خوشی ہوئی، جو پارٹی میں اختلاف پیدا کریگا اس کو میں خود دیکھ لوں گا لاہور اجلاس کو لیکر پارٹی میں جان بوجھ کر اختلاف پیدا کیا جارہا ہے، ذاتی اختلافات ختم کریں اور سارا فوکس تحریک پر رکھیں ۔عمران خان نے کہا ہے کہ میرے اور بشریٰ بی بی کے ساتھ ظلم ہورہا ہے میرا ٹی وی اور اخبارات بند کردئیے گئے اتنا ظلم تو انگریزسرکار نے گاندھی کے ساتھ بھی نہیں کیا میرے ساتھ ہونیوالے سلوک کا حساب ہونا چاہیے، علیمہ خان نے کہا کہ بانی کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمینٹیرینز کو فیصلہ کرنا ہے سیاست میں رہنا ہے کہ نہیں، مذاکرات کس بات پر کرنے ہیں بانی کے کیسز سنیں بات ختم ہوجائے گی۔اس سے پیشترKPKکے وزیر ِ اعلیٰ علی امین گنڈا پورنے کہا کہ اب بات فیصلہ سازوں سے ہوگی، عمران خان نے بڑا واضح کہا ہے کہ وہ پاکستان کی خاطر مذاکرات کیلئے تیار ہیں، فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ سے ملا ہوا ہے۔،حکومت میں رہیں یا نا رہیں ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن ہم ملک کے کونے کونے میں جائیں گے اور عوام کو متحرک کریں گے۔ آج پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو سرحدیں چھوڑ کر تحریک انصاف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، مارشل لاؤں سے پاکستان کی جمہوریت کو عالمی سطح پر جتنا نقصان ہوا، اتنا کسی چیز سے نہیں ہوا،ہم نے اپنے ادارے خود ٹھیک کرنے ہیں آئیں مل کر بیٹھیں اور مسائل حل کریں۔علی امین گنڈاپور نے کہا ایسی سیاست سے بہتر ہے کہ ہم سیاست ہی نہ کریں اور اپنا کوئی اور راستہ اختیار کریں جس میں ہمارے بچے اور بچوں کے بچے غلام نہ ہوں۔عمران خان کیخلاف کیسز میں جان نہیں ہے، عمران خان کے ووٹرز، سپورٹرز اور کارکنوں کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ آج تک دنیا کی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت پر اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا تحریک انصاف پر ہوا مگر لوگ ڈٹ کر کھڑے ہیں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہPTI میں کوئی اختلاف نہیں، مس انڈر سٹینڈنگ ہے ، میری شیخ وقاص اور عالیہ حمزہ سے بات ہوگئی عمران خان کہہ چکے کہ 5 اگست کو تحریک عروج پر ہوگی عمران خان نے سخت ہدایات دیں کہ تمام رہنماؤں کو میرا پیغام پہنچایا جائے کہ وہ ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی اور سوشل میڈیا پر مہم چلانے سے باز رہیں، سوشل میڈیا کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے پارٹی کا بیانیہ مضبوط بنا ئیں تمام رہنما احتجاجی تحریک کے لیے متحد اور یکسو ہوجائیں۔مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا ہ بیرسٹر سیف کا کہناہے کہ اڈیالہ جیل میں سہولیات کا انتہائی فقدان ہونے پر عمران خان سخت نالاں ہیں، عمران خان اور بشریٰ بی بی کو جیل میں ذہنی اذیت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے۔ عمران خان کا کہناہے یا کہ جیل میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں وہ قیدِ تنہائی کاٹ رہے ہیں، ٹی وی، اخبار، کتابیں اور یہاں تک کہ کپڑے بھی فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں۔کہ جیل میں بشریٰ بی بی کو بھی ذہنی اذیت دی جا رہی ہے، بشریٰ بی بی کو گندا پانی دیا جا رہا ہے، خوراک میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے، بشریٰ بی بی کو گزشتہ دنوں زہریلے کیڑے نے پاؤں پر کاٹا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک ہفتہ بیمار رہیں بیرسٹر سیف کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے بتایا کہ ملاقاتیں بھی نہیں کروائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ بیرونی حالات سے مکمل طور پر لاعلم ہیں، عمران خان کو وزیراعلیٰ اور دیگر اراکین کے لاہور دورے اور احتجاجی سرگرمیوں کے بارے میں بھی علم نہیں تھا۔ بیرسٹر سیف کے مطابق عمران خان نے بتایا کہ رہائی کے بعد جیل میں ظلم ڈھانے والے افسران اور متعلقہ حکام کو چھوڑوں گا نہیں، تمام تر اذیت کے باوجود عمران خان اور بشری بی بی کے حوصلے بلند ہیں بہرحال سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ PTI کے کارکنوں اور حامیوں میں ابھی تک 9مئی اور24نومبر کے واقعات کے باعث خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ملکی حالات ، مہنگائی اور پارٹی میں قیادت کا فقدان ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی احتجاجی تحریک میں مار کھانے یا قربانیاں دینے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ملک کو اس وقت دہشت گردی سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ2 سال ہونے کے باوجود عمران خان کی رہائی کی کوئی سبیل نظرنہیں آرہی یہ صورت ِ حال شاید یہ عمران خان کے عروج کو زوال ہے ایسے ہی حالات کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو بھی کرچکے ہیں و ہ بھی اپنے انتہائی عروج کے دوران زوال کا شکارہوگئے تھے دوسری طرف ملک کے موجودہ حالات میں وزیر اعلی خیبرپختونخوا پر اپنے صوبے میں امن وامان کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے سیاست اپنی جگہ لیکن ملکی مفاد ہر لحاظ میں مقدم ہونا لازم ہے اس لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاست ضرور کریں لیکن پہلے ملکی استحکام کو مقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں کہ دنیا میں بڑے سے بڑے رہنمائوں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ صرف مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہوئی ہیں ان حالات کے تناظر میں حکومت کیخلاف عمران خان کی رہائی کیلئے وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی 90دن کی تحریک ناکام ہوتی نظر آرہی ہے وہ وقت سے پہلے ٹھس ہوچکی ہے اس کااحساس حکومت اور مقتدر قوتوںکو بھی ہے اسی لئے ان کی جانب سے عمران خان کو کوئی ریلیف نہ ملنا ہے لیکن سیاست میں معاملات توڑ پھوڑ یا سڑکوں پر حل نہیں ہوتے، اس لیے تحریک کے بجائے مذاکرات کی طرف آنا چاہیے، ملکی کی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے سب کو مل کر چلنا ہے کافی حدتک حالات کی ذمہ داری موجودہ حکومت پربھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے ساتھ مذاکرات میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے سنجیدہ رویہ اختیارکریں آخر وہ بھی آپ کے ہم وطن ہیں۔