کالم

عزم و ہمت کا پہاڑ، اسماعیل ہانیہ

ایران کے شہر تہران میں حماس کے مرکزی رہنما اسماعیل ہنیہ شہید کی شہادت نے دنیا میں ہلچل مچا دی، اور ان کی شہادت امت مسلمہ کیلئے بہت بڑا صدمہ ہے۔ ان کی شہادت نے اسرائیل اور امریکہ کے فسطائیت اور نسل کشی کے منصوبے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ اور یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر، جس میں وہ جمہوریت، مساوات اور انسانیت کی بقا کی بات کرتا ہے، دراصل امریکہ کی وہ سازشی خارجہ پالیسی ہے، جس کے تحت وہ پوری دنیا کے نظام کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص اپنے عسکری، سیاسی اور اقتصادی مفادات اور ترجیحات کے تابع کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی طویل المدتی یونی پولرٹی پالیسی کے ذریعے اپنے سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی مفادات کا تحفظ کر سکے۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کے تحت امریکہ عراق پھر افغانستان آیا۔ اور عالم اسلام میں جہاں کہیں بھی کوئی سیاسی قیادت امریکہ کے اس استحصالی نظام کے خلاف بول رہی ہے، ان کو قتل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اسماعیل ہانیہ کی حالیہ شہادت اس کی واضح مثال ہے۔ کیونکہ اسماعیل ہنیہ کئی سالوں سے فلسطین کی آزادی کے لیے موثر آواز اٹھا رہے تھے اور انھوں نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کرکے مظلوم فلسطینیوں کی آواز کو بین الاقوامی سطح تک پہنچایا۔ میں ذاتی طور پر اسماعیل ہانیہ شہید کے حوصلے، حوصلے، عزم، صبر اور وژن کو حیران ہوں کہ کس طرح وہ 21ویں صدی کی تکنیکی جنگ میں بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑے رہے۔ اسرائیل کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے قبلہ اول مسجد اقصی کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کی تحریک کو جاری رکھی اور اس مقصد کے لیے اپنے خاندان کے 60سے 70افراد کی شہادتوں کا نذرانہ اللہ تعالیٰ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کیا، اور آخر میں خود اس عظیم مقصد کے خاطر اپنی جان کی بازی لگا کر اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگئے۔ اسماعیل ہانیہ شہید قرآن پاک کی اس آیت کی سچی مثال بن گئے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جو لوگ ایمان لائے وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وہ اصل حقیقت ہے جس کے لیے انہوں نے اپنے خاندان، بچے حتی کہ اپنی جان بھی قربان کردی۔ اسماعیل ہانیہ شہید 29 جنوری 1963 کو غزہ کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ہنیہ کی ابتدائی زندگی بہت سے فلسطینیوں کو درپیش مشکلات میں گزری۔ سیاسی سرگرمیوں میں ان کی شمولیت کا آغاز غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں طالب علم کے طور پر ہوا، جہاں وہ اسلامی طلبا بلاک میں ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔ ان کی قائدانہ خصوصیات اور فلسطینی کاز کے لیے لگن نے 1987 میں قائم ہونے والی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے اندر ان کے عروج کا باعث بنا۔ حماس کے اندر اسماعیل ہنیہ کا کردار بہت اہم رہا۔ تحریک کی قیادت کے ابتدائی رکن کے طور پر، وہ اس کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ 2017سے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے طور پر ان کے دور نے انہیں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پیچیدہ سیاسی منظر نامے میں لایا۔ اسماعیل ہنیہ کی سب سے قابل ذکر سیاسی کامیابی 2006 میں اس وقت سامنے آئی، جب حماس نے فلسطینی قانون ساز کونسل کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ منتخب وزیر اعظم کے طور پر، ہنیہ کی حکومت کو بین الاقوامی تنہائی اور الفتح تحریک کے ساتھ اندرونی تنازعہ سمیت اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے 2007میں غزہ میں ایک مختصر لیکن پرتشدد خانہ جنگی ہوئی۔ حماس کے غزہ پر قبضے کے بعد سے، ہنیہ سب سے آگے رہے۔ اسرائیل کے ساتھ ناکہ بندی اور بار بار فوجی جھڑپوں کے دوران حکومت اور انتظامات کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ہنیہ کی قیادت میں حماس نے غزہ میں فلسطینی آبادی کو سماجی خدمات فراہم کرنے پر توجہ دی۔ ان کوششوں میں سکولوں، ہسپتالوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے جو کہ عوامی حمایت کو برقرار رکھنے میں اہم رہے ہیں۔ اسرائیلی ناکہ بندی کی طرف سے عائد کردہ سخت پابندیوں کے باوجود، ہنیہ کی انتظامیہ پٹی میں کچھ حد تک استحکام اور خدمات کی فراہمی کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ہنیہ ہمیشہ سے اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کا زبردست حامی رہا ہے۔ وہ حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کی قیادت کرتے رہے اور مجاہدین کی حکمت عملی میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے۔ اس فوجی تربیت میں راکٹ حملے، اور فوجی کارروائیوں کےلئے سرنگ کی تعمیر اور اسرائیلی افواج کےخلاف مزاحمت کی دیگر اقسام شامل ہیں۔ اپنی فوجی طاقت کو مستحکم کرنے اور علاقائی امن کو برقرار رکھنے کے علاوہ، ہنیہ بین الاقوامی سطح پر بہت موثر کردار ادا کر رہا تھا۔ انہوں نے فلسطینی کاز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایران اور ترکی جیسی علاقائی طاقتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان کی سفارتی کوششوں کا مقصد غزہ کی علیحدگی کو ختم کرنا، مسجد الاقصی کی حفاظت، فلسطینیوں کو آزادی دلانا، اور وسیع تر فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی سیاسی اور مالی حمایت حاصل کرنا تھا۔فلسطینی کاز کے لیے اسماعیل ہنیہ کا کردار کثیر جہتی ہے۔ حماس کے اندر اپنے عروج سے لے کر غزہ پر حکومت کرنے اور مسلح مزاحمت کی وکالت کرنے تک، ہنیہ نے فلسطینی سیاسی منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اور اس کا اثر و رسوخ اور فلسطینی جدوجہد سے وابستگی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے