کالم

عید میلاد النبی ﷺ اور سنت نبوی کی تعلیم

ishrat moeen

ماہ ربیع الاول کا آغاز ہر مسلمان کے لیے خوشی اور خیر و برکت کی علامت ہے۔ اسلامی کلینڈر میں 12 ربیع الاول کی تاریخ، اسلامی تاریخ ہی نہیں بلکہ کرہ ارض پر انسانی تاریخ کا عظیم ترین دن ہے، یہ وہ دن ہے جب رحم اللعالمین احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ اس کے علاوہ تاریخ میں درج ہے کہ 12ربیع الاول ہی کو نبی خدا نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی اور اسی ربیع الاول کی 10 تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام الممنین سیدہ حضرت خدیج الکبری رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔یہ تاریخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی تاریخ بھی ہے ۔اس لیے اس تاریخ کو ایک اعتدال کے ساتھ منانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس دن اللہ تعالی نے اس کائنات کی ظلمت و تاریکیاں نورانیت میں بدل دی تھیں۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ” ہم نے تمہارے پاس ایک روشن کتاب اور چمکتا ہوا نور بھیجا “اس آیت میں نور سے مراد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہیں جو بظاہر لباس بشری میں تھے لیکن نورانیت ان پر اس قدر قادر تھی کہ خالق کائنات نے انہیں نور کہا ۔ اس دن کو شایان شان طریقے سے منانے اور خراج عقیدت پیش کرنے کے ضروری ہے کہ اس روز دنیا بھر کے تمام مسلمان انسانیت کا پرچم سر بلند رکھنے کا تہیہ کریں اور تمام عالم کو یہ پیغام دیں کہ دین اسلام امن اور انسانیت کی سربلندی کا مذہب ہے جس کی تعلیمات ہمیں اللہ تعالی نے قرآن اور نبی کی سنت کے طور پر عطا کی ہے اور سنت نبوی کے ہی زریعے تمام انسانوں کو دنیا و آخرت کی بھلائی کے طور طریقوں سے آشنا کروایا ہے ۔ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کے زریعے انسانیت کی فلاح اور بقا کا پیغام دیا ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اسی لیے ہر مسلمان سنت نبوی کو اپنی عبادت کا ایک کثیر حصہ مانتا ہے ۔عید میلاد النبی مسلمانوں کے لیے بہت بڑا تہوار ہے اس روز منعقد کیا جانے والا ہر جشن مسرت، ہر جلسہ میلاد بامقصد اور موثر ہونا چاہئے اور نبی کی تعلیمات کا مظہر ہونا چاہئے۔ ضروری ہے کہ اس روز تمام مسلمانوں کو اس دن کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنی گذشتہ زندگی کا احتساب کرنا چاہئے اور آئندہ زندگی کے لیے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے جہاں فلاح انسانیت کا پہلو نمایاں ہو۔دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہ اس تاریخ پر خاص جلسے، میلاد اور دینی اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں ۔ انہیں یہ اہتمام کرتے وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ذکر نبی اور نعت خوانی کی محفل سجانا دراصل میں سرکار دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عائلی زندگی کے تابناک گوشوں کو اجاگر کرنا ہے اس لیے ان محافل میں ذکر نبی اور سنت رسول کو قرآنی تعلیمات کے ساتھ بیان کرنا بہت افضل ہے، تاکہ اس کے زریعے ان محافل میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کو ایک بامقصد عملی زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہو اور سرکار دو جہاں کی رحم دلی، امن طلبی، احترام انسانیت، حقوق اللہ و حقوق العباد کے اسباق یاد رہیں۔ جشن عید میلاد النبی جوش و خروش سے ضرور منائیے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ہمارے رسول نے زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کو اپنانے پر بہت زور دیا ہے اور نبی کا فرمان خدا کے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ سنت نبوی اور حکم خدا کے تحت انسانیت کا تحفظ اور خدمت سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں۔ اس سال پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر خطوں میں سیلاب زدگان کی امداد اور ان کی دلجوئی کرنے کی عملی کوشش یقینی طور پر سنت نبوی ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور یہی احکام خداوندی ہے کہ مصیبت کے وقت اہل زمین پر رحم و کرم کے در کھول دیے جائیں اور تمام ان اہل زمین کی مدد کی جائے جو اس وقت مشکلات میں ہیں اور اپنا گھر اور مال و اسباب سمیت اپنے قریبی رشتوں کی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں نبی پاک کی ولادت کا جشن ضرور منائیے لیکن مالی طور پر پہلے مجبوروں اور بے کسوں کی مدد کرکے نبی کی سنت اور حکم خداوندی ادا کیجئے اور رسول خدا سے اپنی عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے گھی کے چراغ اس وقت جلائیں جب رحمت العالمین کی رحمت اور کرم کے سلسلے کو بڑھاتے ہوئے آپ دکھی انسانیت اور ان کی پریشان حال امت کو اندھیروں ، خوف اور بھوک سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے