وطن عزیز پاکستان میں ارشادات سے اختلاف رائے کی بساط نہیں ہے لیکن مودبانہ گزارش کریں گے کہ بلاشبہ ملک خیرات سے نہیں بلکہ ٹیکسز سے چلتے ہیں، الحمد اللہ خیرات اور قرضے دیگر ممالک دیتے ہیں جبکہ عوام اپنی استطاعت سے ہزاروں گنا زیادہ ٹیکسز دے رہے ہیں بلکہ ٹیکسوں پر بھی ٹیکس دے رہے ہیں،ایک سانس پر ٹیکس نہیں ،اس پرٹیکس دینے کا اندیشہ ہے، موت پر بھی ٹیکس ہے، موت سرٹیفکیٹ پر بھی چارجز ہیں، باقی تو کچھ رہ نہیں گیا۔ غریب، مسکین، نادار، بچے سمیت سب ٹیکس دیتے ہیں البتہ اشرافیہ ٹیکسز سے مسثنیٰ ہیں،وہ غریبوں کے ٹیکسوں پر کھاتے پیتے ہیں، دعوتیں اڑاتے ہیں، عاشیاں کرتے ہیں۔سب سے بڑے صوبے پنجاب کے غریب ایم پی ایز وغیرہ نے اپنی تنخواہوں میں ایک ہزار فیصد اضافہ کیا جبکہ اسی صوبے میںملازمین کی تنخواہوں اورپنشن وغیرہ میں کٹوتی کی واریں جارہی ہیں۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ قانون بناتے کہ جب تک ملک پر قرض رہے گا،اس وقت تک وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور تمام ایم پی ایز تنخواہیں اور مراعاتیں نہیں لیں گے، اسی طرح تمام صوبوں اور قومی اسمبلی میں قانون پاس کرتے تو ان کے وقار میں اضافہ ہوتا لیکن یہاں الٹا گنگا بہتا ہے،عوام اور ملازمین کو کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں جبکہ خود غریب عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیوں کرتے ہیں۔وفاقی وزیر صاحب نے فرمایا کہ مہنگائی میں نمایاں کمی آرہی ہے لیکن مہنگائی میںنمایاں کمی کہاں پر آرہی ہے؟ عملی طور پر بازاروں ، مارکیٹوں اور منڈیوں میں نمایاںمہنگائی کی کمی نہیں آرہی ہے ، شایدکاغذات پر کمی آرہی ہو۔ وزراءکبھی عام شہری کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں، منڈی ، بازاروں اور مارکیٹوں سے اشیاءضرورت خریدیں تو تب عیاں ہوجائے گا کہ مہنگائی میں کتنی نمایاں کمی آرہی ہے؟ حکومت فرماتی ہے کہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لائیں گے، حکومت کو معلوم ہوگا کہ سود سنگل ہو ڈبل ڈیجٹ "سود©” حرام ہے۔ سود لینا یا دینا اللہ رب العزت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھلی جنگ ہے ۔ وطن عزیز پاکستان میںسود کی لعنت کو فی الفور ختم کرنا چاہیے،سود ختم کرنے سے ہی معیشت میں بہتری آئے گی۔ حکمران فرماتے ہیںکہ ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ سب ایک دم ٹھیک ہوجائے۔ عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیاں اور کرپشن ختم کریں تو اس کے اثرات جادو کی چھڑی سے بھی زیادہ ہونگے ۔ حکمران فرماتے ہیںکہ پالیسی بنارہے ہیں،جو ادارے خسارے میں ہیں ، انہیں بند ہونا چاہیے۔ گزارش ہے کہ اداروں کو خسارے کرنے والے کون ہیں؟ان اداروں میںکن افراد کی پالیسیوں کے باعث میرٹ کے بغیر بھرتیاں ہوئیں ؟ ان اداروں میںکن افراد نے کرپشن کی؟ حکمران فرماتے ہیںکہ ٹیکس کا ادارہ کرپٹ ہے۔ حکمران عوام کو یہ بھی بتائیںکہ کونسا ادارہ کرپٹ نہیں ہے؟ آپ اداروں کو کرپشن سے کیسے پاک کریں گے؟ حکومت فرماتی ہے کہ ہم زراعت کی بہتری کےلئے بھی انقلابی قدم اٹھا رہے ہیں۔جناب والا! کسانوں میں کھادیں ، ڈیزل، ادویات اور زرعی آلات وغیرہ خریدنے کی سکت ختم ہو چکی ہے۔گندم سمیت تمام اجناس باہر سے مانگوائی جارہی ہیں ۔ زراعت کی بہتری کےلئے زرعی انقلاب یہ ہوگا کہ آپ کھادیں، ڈیزل، ادویات اورزرعی آلات کی قیمتوں میں عملی طور پر نمایاں کمی کریں لیکن سبسڈی نہ دیں کیونکہ سبسڈی کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے،وہ بھی ایک علیحدہ باب ہے۔ سبسڈی کی بجائے سرکاری اخراجات کم کریں،اس سے درج بالا زرعی آلات ، ادویات، کھادیں اور دیگر چیزیں سستی کریں۔ وزیر صاحب نے فرمایا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کریں گے، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ ہیںجس کے اثرات عام آدمی اور صنعتکاروں سمیت سب پر پڑتے ہیں، توانائی کے ذرائع مہنگی ہونے سے ملک اور عوام کا ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے ۔ حکمران فرماتے ہیںکہ ملک کی بہتری کےلئے پرائیویٹ سیکٹر کو بھی شامل کریں گے۔گزارش یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو ضرور شامل کریں لیکن آئی پی ایز کی طرح شامل نہ کریں کیونکہ ان کی وجہ سے ملک و ملت کا بہت زیادہ نقصان ہوچکا ہے ۔ قارئین کرام! بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی طویل جدوجہد اور بیشمار قربانیوں سے اسلام کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ہمارا ملک قدرتی دولت سے مالامال ہے اور ہمارے لوگ باصلاحیت ہیںلیکن غلط پالیسیوں کے باعث عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے ، نوجوان مایوس ہیں ، ملازمین پریشان ہیں اور لوگ حیران ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اشرافیہ کو عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیاں ترک کرنے چاہئیں، صدر، وزیراعظم ، سینٹ چیئرمین، ایم این ایز، ایم پی ایز ، سینٹرز سمیت سب کو تنخواہیں اور مراعات نہیں لینی چاہئیں، سرکاری ضافتوں پر قدغن ہونا چاہیے ۔اسی طرح دیگر ممالک کے سربراہوں اور وفود کو ان کے سفارت خانوں میں ٹھہرانا چاہیے،ہر سطح پر سختی سے کفایت شعاری کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ اسی طرح سرکاری اداروں کے ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ مفت گاڑیاں، پٹرول ، بجلی ، گیس سمیت دیگر مراعاتیں نہیں لینی چاہئیں،محکمہ جات میںغیر ضروری آسامیاں ختم کرنی چاہئیں۔ ملازمین کے بچے اور بیگمات کو سرکاری گاڑیوں میں سیر و تفریح اورشاپنگ پر آنے جانے پر سخت پابندی ہونی چاہیے ۔ چیک بیلنس کا موثر نظام ہوجانا چاہیے، کرپشن کو بالکل ختم کرنا چاہیے اور سب کام میرٹ پر کرنے چاہئیں ۔عوام کے ٹیکسز کے پیسے صرف اور صرف عوام پر خرچ ہونے چاہئیں ۔ ایسا کرنے سے ہماراملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔