کالم

فانی زندگی کی باتیں

زندگی صابن کی ٹکیا کی مانند اپنے ہی ہاتھوں میں گھلتی جا رہی ہے غور کریں پیدائش ہوئی بچپن لڑکپن جوانی اور پھر بڑھاپا آ جاتا ہے کبھی کبھی زندگی کے سب ادوار یاد آتے ہیں تو انسان سوچتا ہے کہ میں نے کیا کھویا اور کیا پایا اکثریت دنیا کی آسائشیں سمیٹنے میں مصروف رہتی ہے دنیا کے علاوہ آخرت بھولی رہتی ہے اگر آپ ملازمت کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں تو دفتری ماحول میں افسر اعلی کی بات حکم کا درجہ سمجھ کر پوری کرنی ہوتی ہے اس کارکردگی پر سالانہ رپورٹ جیسے کانفیڈنشل رپورٹس کہا جاتا ہے لکھی جاتی ہے یہ رپورٹ آپ کا آفیسر لکھتا ہے اور پھر جب ترقی یعنی منصب مزید بڑھنے کا موقع آتا ہے تو ان خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر ترقی ہوتی ہے یہ تو دنیاوی زندگی کی بات ہے لیکن افسوس کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں کہ ہم اللہ کے احکامات کو سنجیدگی سے نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرتے ہیں زندگی بس گزر رہی ہے آسائشوں کو اکٹھا کرنے میں اور ان سے مستفیض ہونے میں ، ہم مسلمان ہیں اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنا کر مسلمان والدین کے ہاں بھیجا اپنا ماننے والا بنایا اور حضور کا غلام بنا کر آپ کی امت کا فرد بنایا مسلمان ہونے کے ناطے اللہ پاک نے بنیادی عقائد اور اصول عطا فرمائے جن میں نماز روزہ حج زکو ۔ ایمان کے بعد نماز روزہ اور پھر صاحب استطاعت پر حج اور زکو فرض کیے گئے ہمیں یہ احساس قطعی طور پر نہیں ہو رہا کہ ہم نے لاشعوری طور پر دنیا سے جو کچھ حاصل کیا ہے چھوڑتے جا رہے ہیں میرے خیال میں ناکام انسان وہ ہے جو بڑی نرم دلی سے عبادت کرے اور بڑے سخت دل کے ساتھ کاروبار زندگی چلاتا ہے کیونکہ ان دو رویوں میں اسکی ذات تقسیم ہے اللہ کے حضور میں ایک شخصیت اور باہر کی دنیا میں دوسرا روپ عبادت یہ نہیں سکھاتی کہ اپنی ذات کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں جسطرح زندگی مسجد میں ہوتی ہے ویسی باہر ہونی چاہیے شخصیت میں تضاد نہیں ہونا چاہیے یہ دونوں راستے ہمیں ایک ہی معبود کے سامنے پیش کرتے ہیں یہ نہیں کہ مسجد میں تو اللہ کے سامنے اور باہر جا کر ہم اللہ سے دور ہو جاتے ہیں غیر حاضر ہو جاتے ہیں ہماری خوش بختی ہے کہ رمضان المبارک ہماری زندگی میں ہے روزہ اللہ کا حکم ہے اور وہ تمام فوائد جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ روزہ نظم و ضبط سکھاتا ہے غریب والا فاقہ سکھاتا ہے اپنی ذات کو مجبوری اور جبر سے نجات دیتا ہے یہ سب کچھ صحیح ہے لیکن سب سے افضل اور بڑی بات یہی ہے کہ اللہ کا حکم ہے اور اسکی تعمیل ہمارا فرض ہے اگر ساری زندگی اسی مالک کے تابع رہ کر گزاری جائے تو بندگی کا مقام بھی سمجھ آ جائے بدقسمتی سے کچھ لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی روزہ نہیں رکھتے نماز نہیں پڑھتے زندگی کے باقی کاموں میں مشغول رہتے ہیں احکامات کی بجا آوری کے لیے ان کو وقت نہیں ملتا اکثریت ایسی ہی بنتی جا رہی ہے ہم اللہ کے احکامات کو ہلکے پھلکے انداز میں لیتے ہیں اپنی سہولت کے مطابق دنیا اور دین کو ایک کیفیت سے ڈیل کرنا ذمے داری ہے کامیاب انسان تو وہ ہے جو دونوں کو ایک کیفیت سے گزارے پھر اسکا سونا بھی عبادت اور جاگنا بھی۔ عبادت اور زندگی الگ شعبہ نہیں جسے دین سے محبت نہیں ایکبار اگر اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا جائے تو پھر زندگی میں جو کچھ بھی ہوگا وہ اس پاک ذات کا کرم ہوگا محبوب کی تعریف ہی یہی ہے کہ محبوب کا ستم ستم نہیں لگتا ستم غیر کا ہوتا ہے اپنوں کا کرم ہوتا ہے جہاں تعلق ہو وہاں گلہ شکوہ اور شکایت نہیں ہوتی اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہم صحت مند ہوتے ہیں اور رمضان شریف کا آغاز ہے روزہ اور سجدہ اللہ کے قریب کرتے ہیں روزہ دار کو اجر اللہ عطا فرماتا ھے یہ اللہ اور بندے کے درمیان خاص عبادت ہے دین کے احکامات پر عمل کرنا ہی مقصد حیات ہے جس سے ہم دور ہوتے جا رہے ہیں ہم تین کاموں کے حصول کےلئے مصروف ہیں شہرت حاصل کرنے کےلئے دولت حاصل کرنے کےلئے تاکہ خواہشات کی تکمیل ہو اور اپنی ذاتی پہچان کےلئے صرف دولت کے حصول کی خواہش اور تگ و دو انسان کو اللہ سے دور کرتی ہے شہرت اس جھوٹے ماحول میں کیا ہوگی سچوں میں شہرت بنے تو بات بنتی ہے ذاتی پہچان یعنی اپنی تخلیق دنیا میں آنے کا مقصد فرائض حقوق اور پھر ان کا پورا کرنا۔ہم میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو دنیا کی چکا چوند کر دینے والی زندگی سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ دین کی روشنی میں زندگی گزرے کسی بھی قسم کی مجبوری دین کے فرائض پورا کرنے میں آڑے نہ آئے رمضان کے مہینے میں افطار پارٹیاں بھی ہوتی ہیں عزیز و اقارب دوست سبھی ثواب حاصل کرنے کے موقع کو ضائع نہیں کرتے لیکن جو روزہ نہیں رکھتے وہ اس محافل میں ضرور حاضر ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھیں انہیں ایسی افطار پارٹی میں نہیں جانا چاہیے اور نہ افطار پارٹی کا اہتمام کرنا چاہیے یہ اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے گستاخی ہے بیباکی یے روزے کے بغیر روزے کے نام پر وہ کیفیت حاصل کرنا مناسب نہیں لگتا ایسے اصحاب کو عید کا کیا لطف آسکتا ہے جو روزے دار نہیں ہوتے پھر نہ عید ہے نہ ہی افطار کیونکہ افطاری تو روزہ دارکےلئے ہے اور عید بھی۔ جب دین کو قبول کیا ہے تو دین کا پرچار اسکا تحفظ ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے اگر ہم ان احکامات کو جو اللہ نے ہم پر فرض کیے ہیں عمل پیرا ہوتے ہیں تو اپنا ماحول اور معاشرہ مثالی معاشرہ بن جاتا ہے بحیثیت مسلمان ہماری زندگی کا ہر عمل اللہ کے احکامات کے تحت ہونا چاہیے ہمارا یمان اللہ کا ماننا ہے لیکن رسالت کے ذریعے اللہ اور اسکے رسول کے تمام احکامات اور عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہیں بلند مقصد زندگی اللہ اور اسکے محبوب کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں ہی بن سکتی ہے آسودگی باطن کی اور مرتبہ ظاہر کا چاہنے والا کہیں نہ کہیں ڈسٹرب رہتا ہے اگر مقصد تقرب الٰہی ہے تو تکالیف بھی برداشت کرنا پڑتی ہے دل میں سوز پیدا ہو جائے تو رات کو جاگنے اور اللہ سے لو لگانے کی خواہش بھی تکمیل پا لیتی ہے راہ الٰہی کی خواہش شکر کا مقام ہے دین کے ہر رکن پر خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنے میں کامیابی ہے صرف بحث فائدہ نہیں پہنچاتی انسان کی تخلیق اور زندگی کے تمام شعبے اگر تخلیق کرنےوالے کے احکامات کے تحت کام کریں تو ہر طرف کامیابی کامرانی نظر آتی ہے ورنہ ناکامیوں اور مایوسیوں کی فضا اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اس وقت ملک میں جو معاشرتی فضا ہے وہ اسلامی تو نہیں ابھی چند دن پہلے کچھ شادیوں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں گھر میں دس پندرہ دن مختلف رسومات جو پڑوسی ملک کے معاشرے کی پیداوار ہیں ادا ہوتی رہیں لڑکے لڑکیوں کے بیباک رقص جو گھر کے بزرگوں کی موجودگی میں خوشی کے اظہار کا ذریعہ بنے ہوئے تھے جن کے پاس اللہ نے مالی سہولتیں عطا فرمائی ہیں وہاں اکثریت کے ہاں ایسی خودساختہ رسومات کی ادائیگی عروج پر ہوتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ فلاں کی شادی پر بڑا مزہ آیا سوچنے کا مقام ہے کہ ہم اپنے مذہب کی رائج کردہ حدود کو کس ڈھٹائی سے کراس کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں بڑے بڑے ہوٹلوں میں دعوت ولیمہ جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم زمین کے اوپر زندگی گزارتے ہیں اور سہولت اور آسائش کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں نام نمود کےلئے بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں لیکن اس زمین کے نیچے ہماری حقیقت ہے صرف مٹی ۔ نہ دنیا میں آتے ہوئے لباس ہوتا ہے اور نہ ہی جاتے ہوئے پیدائش پر گھر والے لباس پہناتے ہیں اور جاتے ہوئے بھی وہی لٹھے میں لپیٹ کر زمین کے سپرد کر دیتے ہیں نہ دولت ساتھ جاتی ہے نہ ہی ناموری بس مردہ دفنایا جاتا ہے نام تک چھن جاتا ہے کامیابیوں کے نشے میں ہم حقیقت سے بہت دور رہتے ہیں کبھی سوچتے نہیں کہ اپنی ذات ہیں جو تبدیلیاں وقت کے ساتھ رونما ہو رہی ہوتی ہیںایسے کیوں ہے کیا ان کو روکنا میرے اختیار میں ہے انسان کے بس میں کچھ نہیں مالک کے کرم کے ساتھ زندگی گزرتی ہے وہ مالک لاکھوں کروڑوں عطا فرما کر اڑھائی فیصد مانگتاہے دولت مند بنانے والے نے مال دیکر تھوڑا سا سوال کیا ہے وہ آزمانہ چاہتا ہے ہم اسکے حکم کی تعمیل میں بخیل بن جاتے ہیں غور کریں سرکار دو عالم کائنات کے مالک ہیں اطلاع دی جا رہی ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو یہ کائنات نہ ہوتی اور پھر آپ کےلئے فاقہ ہے کیا اللہ اپنے محبوب کو فاقہ دے سکتا ہے یا نہیں بلکہ راستہ اختیار کیا ہے بلند مقصد سے بلند زندگی ہے مشکل حالات میں بسر ہو رہی ہے یہ پیغمبر کا کمال ہوتا ہے کہ ان کے مقاصد بلند لیکن زندگی ایک عام انسان جیسی انہوں نے زندگی میں عروج نہیں رکھا وہ عروج جسے ہم زندگی کا عروج سمجھتے ہیں انہوں نے اپنی زندگی عام ماننے والے کے برابر رکھی بادشاہوں میں سلطان ہیں اور مسکینوں میں مسکین ہوکر بیٹھے محبت شفقت ایثار اور پیار ان کی خصوصیات ہیں کچے ایمان کے ساتھ ہم پکے مکانوں میں رہتے ہیں دولت کو سنبھال کر رکھتے ہیں اسے اللہ کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بناتے عبادت دکھاوا بن چکی ہے دنیا میں حاصل کرنے کی تمنا اگر رضائے الٰہی کے علاوہ ہو تو پھر ہمیشہ مشکلات رہتی ہیں محبت پیار اور ایثار کی راہ اپناتے ہوئے معاشرتی زندگی کو مثالی معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے وقت گزرتا جا رہا ہے جسکا احساس نہیں زندگی اللہ کی راہ پر چلنے لگے اور اس پاک ذات کی قربت کےلئے خواہش پیدا ہو جائے تو پھر اور کیا چاہیے ایک سجدہ جیسے ہم مشکل عمل سمجھتے ہیں ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے انسان حادث ہے حادث کا معنی ہے کہ ایک مقام پر پیدا ہوا اور ایک مقام پر اسکا وصال ہوا تو اسے حادث کہتے ہیں اور اسی حادث سے اللہ کی صفات بیان ہوئیں اللہ کے جلوے بیان ہوئے اللہ کی تخلیق میں انسان اشرف ہے دعا یہ ہے کہ وہ پاک ذات ہمیں اپنی رحمت میں رکھے غلطیوں کوتاہیوں کو معاف فرمائے وہ رحمان اور رحیم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے