اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کی اہلیت کو تسلیم کر لیا ہے۔جمعہ کے روز ایک خصوصی اجلاس میں فلسطین کی مستقل رکن بننے کی اہلیت کو تسلیم کرتے ہوئے سلامتی کونسل کو سفارش کی گئی ہے کہ وہ فلسطین کے مستقل رکن بننے کی قرارداد کا ازسرِنو جائزہ لے کر اس کی حمایت کرے۔جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں 143 ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت 9 ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی،اسی طرح 25 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ووٹنگ کے بعد اسے ادارے کی مکمل رکنیت تو نہیں ملی تاہم فلسطین کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن بننے کا اہل تسلیم کرلیا گیا ہے جو بڑی پیش رفت ہے۔یو این او میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم امن اور آزادی چاہتے ہیں۔دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے فیصلے پر ردعمل میں اس کو حماس کے لیے انعام قرار دیا جو اسرائیل کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے جنرل اسمبلی کے فیصلے کو اقوام متحدہ کا تعصب بھی قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کے لیے فلسطین کی درخواست کو پہلے 15 رکنی سلامتی کونسل اور پھر جنرل اسمبلی سے منظور کرنا ضروری ہے۔ امریکہ چونکہ اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہے لہذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر سلامتی کونسل میں اس پر دوبارہ ووٹنگ ہوتی ہے تو اس کا بھی وہی انجام ہوگا یعنی امریکی ویٹو، جو اس سے قبل بھی کیا جا چکا ہے۔غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے سات ماہ بعد اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے جنرل اسمبلی کی حمایت سے اسرائیلی حکومت پر دبا بڑھے گا۔فلسطین کو 2012 سے غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ تو حاصل ہے مگر مکمل رکنیت جیسے حقوق میسر نہیں ہیں۔رکنیت کا فیصلہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی کر سکتی ہے۔اسی لئے جنرل اسمبلی نے یہ کیس سلامتی کونسل کو بھجوا دیا ہے۔ جنرل اسمبلی کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بیشتر یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس ضمن میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا وہ بیان اہمیت کا حامل ہے جو انہوں نے جمعرات کو ایک ہسپانوی نشریاتی ادارے کو دیا کہ سپین 21 مئی کو ایسا کرے گا۔ اس سے قبل انھوں نے تاریخ کی تصدیق کیے بغیر کہا تھا کہ آئرلینڈ، سلووینیا اور مالٹا بھی یہ قدم اٹھائیں گے۔جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی قرارداد میں فلسطین کو عالمی ادارے میں اضافی حقوق بھی دے دیے گئے ہیں، جس کے بعد وہ مباحثوں میں مکمل طور پر حصہ لے سکتا ہے، ایجنڈا آئٹمز تجویز کر سکتا ہے اور کمیٹیوں میں اپنے نمائندوں کو منتخب کر سکتا ہے۔تاہم اسے اب بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔تنازعہ فلسطین نے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی برادری کو پریشان کر رکھا ہے۔ فلسطین کو بطور ریاست اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 139 تسلیم کرتے ہیں۔عملی طور پر فلسطینیوں نے اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے ذریعے خود مختاری قائم کر رکھی ہے۔اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا امریکہ بھی اس کا ہمنوا ہے یہی امر اس تنازعے کے حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین تنازعے کا ایک نام نہاد دو ریاستی حل چاہتا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ہونی چاہیے۔گزشتہ ماہ بھی امریکہ نے سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے الجزائر کی اس قرارداد کو روک دیا تھا جس میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں مسلسل تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔اسرائیل یروشلم پر مکمل دعوی کرتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ یہ اس کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اس دعوے کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کی سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہئیں تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، وہاں اس نے غیر قانونی بستیاں تعمیر کر رکھی ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔جبکہ اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ سے زائد فلسطینی تارکین وطن کی حیثیت سے دنیا بھر میں آباد ہیں۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ ان افراد کو واپس آنے کا حق حاصل ہے مگر اسرائیل خوفزدہ ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔جنرل اسمبلی کے تازہ فیصلے کے بعد امید کی جا سکتی ہے سلامتی کونسل بھی اس فیصلے کی تائید کرے گی۔
مقبوضہ کشمیر، بی جے پی لوک سبھا الیکشن سے آوٹ
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی لوک سبھا کے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر رہے ہیں لیکن ان کے دوروں میں کشمیر شامل نہیں ہے۔اس حوالے سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ اخر مودی کی بی جے پی کو کیا خوف لاحق ہے۔1996 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بی جے پی کشمیر میں لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی۔مقبوضہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ جہاں ‘لوک سبھا’ کی تین نشستیں ہیں جن پر انتخابات ہونا ہیں اور تینوں نشستوں پر دو مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مدِ مقابل ہیں۔جبکہ بی جے پی کا مکمل بلیک آوٹ ہے۔دونوں مقامی جماعتیں بی جے پی کی سیاسی مخالف ہیں اور دونوں نے حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دیا ہے۔سیاسی مبصرین اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق بی جے پی نے کشمیر کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اپنے بیانیے سے متصادم نتائج آنے کے خوف کی وجہ سے کیا ہے۔کشمیر کی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلی عمر عبد اللہ نے سوال اٹھایا ہے کہ بی جے پی انتخابات سے غیر حاضر کیوں ہے۔ان کے بقول کشمیر سے متعلق بی جے پی کے دعوں اور زمینی حقائق میں مماثلت نہیں ہے۔ مئی 2019 میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کو کشمیر کی تینوں نشستوں پر عمر عبد اللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
امریکا نے 3بھارتی کمپنیوں پرپابندی عائد کردی
بھارت امریکہ کا اتحادی ملک ہے مگر مودی حکومت کو ایک بڑا جھٹکا لگ گیا ہے کہ امریکا نے 3 بھارتی کمپنیوں پرپابندی عائد کردی۔اس ضمن میں زین شپنگ، پورٹ انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، اور سی آرٹ شپ مینجمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ جیسے بڑی کمپنیوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ امریکہ نے ان کمپنیوں پر پابندی غیر قانونی طریقے ایکسپورٹ کر رہی تھیں۔میڈیا اطلاعات کے مطابق یہ کمپنیاں روس، یوکرین جنگ میں غیر قانونی طریقے سے ڈرون ایکسپورٹ کر رہی تھیں۔امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بھارتی کمپنیاں امریکی مفادات کے خلاف کام کرتی ہوئی پائی گئیں۔دوسری طرف ایران کی جانب سے بھی ان تینوں کمپنیوں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایرانی فوج کے سے نامعلوم فضائی وہیکلز روس کو فروخت کیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ وہیکلز ایران سے روسی فوج نے خریدیں اور انہیں یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال کیا۔صحارا تھنڈر وہ مرکزی کمپنی ہے جس نے ان 3 کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایران اور روس کے درمیان یہ سودے کروائے اور سامان کی ترسیل کی۔امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2022 سے اب تک یہ کمپنیاں جنگی سازوسامان کی کئی کھیپ روس پہنچا چکی ہیں۔حال ہی میں قطر اور آسٹریلیا میں بھی بھارتی خفیہ ایجنٹ ان ممالک کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
اداریہ
کالم
فلسطین کی مستقل رکنیت، یو این جنرل اسمبلی کا بڑا فیصلہ
- by web desk
- مئی 12, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 586 Views
- 7 مہینے ago