کالم

"قانون کی حکمرانی”

مملکت خداداد پاکستان یوں تو اپنے معرضِ وجود میں آنے کے ساتھ ہی مسائل اور مشکلات سے دوچار رہی ہے جبکہ ملک کا نظامِ حکومت یا طرزِ حکومت بھی تختہِ مشق بنا دیا گیا سول اور فوجی حکمرانوں نے اس ملک کو ایسی دلدل میں پھنسا دیا کہ آئین اور قانون کی پاسداری نہ ہو سکی ملک کے ادارے مضبوط ہونے کے بجائے تباہ ہوگئے غیر آئینی اور مسلسل متزلزل حکومتوں کی وجہ غیر معمولی حالات سے ملک ہمیشہ دوچار رہا ملک میں نہ امن قائم ہوسکا اور نہ ہی کوئی عوامی حکومت قائم ہوسکی بڑے بڑے تیس مار خان آئے اور چلے گئے اور انکی لیگسی ملک کی بربادی ثابت ہوئی خود اور اپنی نسلوں کو تو مالا مال کر گئے لیکن ملک کو کنگال کردیا گیا۔ جو بھی حکومت بنتی رہی ہے وہ اپنے سے پہلی والی حکومت کو ملک دشمن قرار دینے کے لئے سرکاری وسائل اور اداروں کو استعمال کرتی رہی یہ کہ غداری اور وفاداری کے سرٹیفکٹ بانٹے جاتے رہے ملک اور اداروں کو اپنی انا، انتقام، ذاتی مفادات، خواہشات اور انتقام کے تحت چلایا جاتا رہا ہے جس سے ملک برباد ہوتا گیا عوام کا ستیاناس ہوتا رہا ہے اسی لئے آج 76 سال گزرنے کے باوجود ملک سیاسی، معاشی داخلی،آئینی دستوری اور سفارتی سطح پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ملکوں کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو جن ملکوں نے ترقی کی ہے عوام کو مدنظر رکھا انہوں نے قانون کی بالادستی کو مقدم رکھا اور ادارے مضبوط کیے انکے ہاں آجانفرادی حقوق اور شخصی آزادیوں کا تحفظ قانون کی حکمرانی سے ہوا ہے حکمرانی وہی ہوتی ہے جس میں ریاست کے تمام شہریوں کے حقوق محفوظ ہوں اور سب یکساں بنیادوں پر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ قانونی نظام میں انصاف حاصل کر سکیں۔ تحفظ تقریر اور آزادی اظہار رائے، اجتماع اور مذہب جیسی آزادیوں کی حفاظت قانون کی حکمرانی سے ممکن ہوتی ہے اور اقتدار کے غلط استعمال کو روکتی ہے سب کے لیے یکساں قوانین بنا کر بشمول حکمرانوں کے قانون کی حکمرانی اختیار کے من مانی استعمال کو بھی روکتی ہے اس سے کرپشن اور حکومت کی طاقت کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔قانون کی حکمرانی سے سرکاری اہلکاروں اور اداروں کو قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ جوابدہی عوامی اداروں پر اعتماد برقرار رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کےل۷ے بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ عوام کے مفاد میں کام کریں گے ۔قانون کی حکمرانی اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ سب کو قانون کے سامنے برابر سمجھا جائے، جو جمہوری اصولوں کا ایک بنیادی ستون ہے یہ برابری امتیاز اور ناانصافی کو روکنے میں مدد دیتی ہے پھر قانونی فریم ورک جو واضح، مستحکم اور پیش بینی کے قابل ہو، ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے جہاں لوگ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کر سکیں اور اپنا کاروبار موثر طریقے سے چلا سکیں اور معیشت ترقی کر سکے لوگوں کو روزگار ملے سرمایہ کاری بڑھ سکے قومی دولت میں اضافہ ہوسکے گروتھ بڑھ سکے ۔ قوانین کے نظام اور ان کے نفاذ کےلئے ایک میکنیزم قائم کر کے قانون کی حکمرانی عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور انصاف فراہم کرنے میں مدد دیتی ہے جو ایک فعال جمہوریت کےلئے ضروری ہے ۔ قانون کی حکمرانی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ انتخابات منصفانہ، شفاف اور ایمانداری سے ہوں اور جس کا مینڈیٹ ہو جسے ملک کی عوام کی اکثریت ووٹیں دے اسے حکمرانی سے نہ روکا جائے تاکہ عوام کی تائید والے نمائندے پارلیمنٹ میں جاکر عوام کی نمائندگی کر سکیں اور عوامی امنگوں کے مطابق قانون سازی کرسکیں جمہوری حکومت کی قانونی حیثیت کی بنیاد ہی عوام کی رائے دہی ہے۔بنیادی طور پر قانون کی حکمرانی ہی جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ طاقت ایک چیک اینڈ بیلنس کے فریم ورک کے اندر استعمال ہو، انفرادی آزادیوں کی حفاظت ہو، اور ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کو برقرار رکھا جائے۔ آج ہمارے ملک کے ارباب اختیار ملک کو کس قانون کس اصول اور کس آئین کے تحت چلا رہے ہیں ۔ ملک ایسے نہیں چلتے چاروں طرف سے خطرات اپنی جگہ، اداروں میں ٹکراﺅ الگ نظر آتا ہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، آزادی اظہار رائے پر قدغنیں مار کٹائی ، صوبائی اور لسانی نفرتیں بڑھ رہی ہیں یہ کیا کوئی محب وطن قیادت ایسا کام کرسکتی ہے جیسے ملک کی سیاست اور ریاست زوال پذیر ہورہی ہے ویسے ہی ہمارا کشمیر کا کیس بھی کمزور ترین سطح پر ہے ۔ جگرمراداآبای نے کیا خوب کہا تھا’
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
اسی کائنات میں اے جگر کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے