کالم

"لمبی لمبی امیدیں مت کیا کرو”

asad mustafa

غالب نے کہا تھا،جب توقع ہی اٹھ گئی غالب،کیا کسی کا گلہ کرے کوئی۔ہم بھی کس کس گلہ کریں بس ہر مرتبہ کسی نہ کسی سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں،اور پھر یا تو وہ ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا یا پھر ہم ہی اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرا رہے ہوتے ہیں ۔ امید بھی بڑی خوبصورت چیز ہے۔کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے ۔توقعات اور امیدوں نے تو ہم انسانوں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ورنہ بقول غالب” کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک "توقع اور امید میں بھی تھوڑا سا فرق ہے۔جیسے ہم دوسروں سے توقعات وابستہ کرلیتے ہیں یا کام کرنے کے بعد توقع ہوتی ہے کہ اب اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا۔سو اچھے نتیجے کےلئے بھی عمل شرط ہے۔عمل جتنا زیادہ بہتر ہوگا نتیجہ اتنا توقع کے مطابق ہوگا اور اگر عمل ہو گا ہی نہیں تو نتیجہ کیا خاک آنا ہے۔بعض لوگوں کا عمل تو بہتر نہیں ہوتا مگر وہ سنہرےمستقبل کے خواب دیکھتے ہیں ۔ اصل میں توقعات اور امیدیں انسان کا لازمہ حیات ہے۔کسی دوست یا اپنے سے اچھی توقع رکھنا انسانی جبلت اور فطرت میں شامل ہے۔ بڑی بڑی خواہشیں بھی نفس کا تقاضا ہوتی ہیں مگر بقول اقبال بندہ مومن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوتے ہیں۔توقعات زیادہ نہ رکھنا ، اس لیے بھی ضروری ہوتاہے اگر وہ پوری نہ ہوں تو پھر ہمیں زیادہ تکلیف بھی نہ ہو۔اور دوسروں سے ہمارے تعلقات بھی زیادہ خراب نہ ہوں ۔ اس لیے توقعات کا معاملہ زیادہ نازک اور پیچیدہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:۔”لمبی لمبی امیدیں مت کیا کرو”لمبی امیدیں بھی ضروری نہیں کہ پوری ہوجائیں اور اگر پوری نہ ہوں گی تو دکھ پیدا ہو گا۔کسی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لینا درست نہیں ہے کیونکہ امیدوں پر پورا اترتے اور لمبی امیدوں کو پورا ہوتے کم ہی دیکھا گیا ہے ۔ ایک اہم بات یہ کہ لوگوں سے توقع نہ رکھو لیکن ہر ایک کی توقع پر پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اسی سے جڑی ہوئی بات ہے کہ جو لوگوں سے توقع نہیں رکھتے وہ مایوس بھی نہیں ہوتے۔ معاشرے میں مایوسی کے پیدا ہونے کا سب سے بڑا سبب توقعات کا پورا نہ ہونا ہے ۔ مثال کے طور پر ہم سب سے زیادہ توقعات سیاستدانوں سے وابستہ کرتے ہیں ۔ اور وہ بھی بہت کم لوگوں کی توقعات پر پورا اترتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے لاکھوں ووٹرز میں بھلا کس کس کی توقع پر پورا اترے گا ۔ مثلا ایک ایم این اے صاحب کو الف نام لوگوں نے بیٹوں کی نوکریوں کیلئے کہہ رکھا ہے ۔ ب نام کےلئے لوگوں نے اپنے گلی محلے کی گلیاں پکی کرانے کےلئے کہا ہوا ہے۔ت نام کے لوگوں نے سرکاری محکموں میں کہیں سفارشوں کےلئے کہا ہوا ہے۔ج نام کے افراد نے بنکوں میں ملازمت کی سفارش کروانی ہے د نام کے لوگوں نے تبادلوں کےلئے کہا ہوا ہے، وغیرہ وغیرہ غرض جتنے ووٹرز ہیں اتنے کام اورجناب والا نے جلسے جلوسوں میں اپنے علاقے کے ترقیاتی اور عوامی فلاح کے کام کروانے کے کئی دعوے بھی کئے تھے ۔اب ہر ووٹر اپنے اپنے کاموں کے سلسلے میں انہیں ڈھونڈتا پھرتا ہے اور جناب والا لوگوں سے چھپتے پھرتے ہیں کہ ہر ایک سے ملنا اور ان کے کام کروانا ناممکن ہوتا ہے ۔ میں کسی خاص سیاستدان کی بات نہیں کر رہا ہے ۔ ہمارے ملک میں عموما ایسا ہی ہوتا ہے ۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے سیاسی ادارے کے لوگ ہی دنیا میں حکومتیں کرتے ہیں ۔ جمہوری طرز حکومت میں اس ادارے سے وابستہ لوگ ہمیشہ سے لوگوں کو ووٹ لینے کےلئے سہانے خواب دکھاتے رہے ہیں لیکن شاید ہی کوئی ملک ہو جس کے لوگ اس ادارے کی کاکردگی سے پوری طرح مطمئن ہوں۔بعض ممالک میں دو جماعتی پارٹیاں ہی شروع سے حکمران چلی آتی ہیں۔لیکن ان میں بھی چہرے بدلتے رہتے ہیں اور کبھی ایک پارٹی اور کبھی دوسری پارٹی منتخب ہوتی ہے۔ایک حکمران روانہ ہوتا ہے تو اس کے شروع کردہ کئی قسم کے منصوبوں کی بساط بھی لپیٹ دی جاتی ہے۔پھر نئے لوگوں سے توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں ۔ آج ہمارا سب سے بڑا المیہ بھی یہی ہے کہ ایک عام آدمی سے لے کر اشرافیہ تک توقعات کا مرکزہ سیاست اور حکومت کو جانا جاتا ہے ۔ جبکہ بار بار کے تجربات ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ہمارا سیاسی ادارہ عوام کی توقعات پوری کرنے میں اکثر ناکام رہتا ہے۔حکومتوں کا بار بار بدلنا اور قرار نہ پکڑ سکنا بھی اس ناکامی کی وجہ ہو سکتی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومتوں کی کرپشن کی کہانیاں تو بہت جلد شہرت پا لیتی اور تا دیر یاد رہتی ہیں لیکن ان کے تعمیری کام پس پردہ رہتے ہیں یا لوگوں کے اذہان سے جلد محو ہو جاتے ہیں یا کچھ اور لوگ کریڈٹ اپنے نام کر لیتے ہیں۔اب اس کے حل کی طرف آتے ہیں۔ دراصل ان تمام مسائل کے حل کےلئے وسیع تر قومی مفاد اور ملکی ترقی کے منصوبوں پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں اتفاق و اتحاد ضروری ہے۔یہ اتحاد وسعت قلبی مانگتا ہے اور وسعت ذہنی بھی ، جس پر کام کرنے اور جسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی تعمیری نتیجہ لینے کےلئے توقعات اور امیدیں کم اور منصوبہ بندی سے محنت زیادہ کرنا پڑے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے