کالم

ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی

پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے جس بری طرح متاثر کیا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں پلاننگ کمیشن کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اب تک 863افراد جاں بحق اور 1147زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں مکانات سڑکیں پل اور لائیو اسٹاک متاثر ہوئے ہیں سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 9166 گھروں کو نقصان پہنچا اور 239پل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں لائیو اسٹاک کے شعبے میں 6200سے زائد جانور ضائع 672 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ زرعی شعبے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے پلاننگ کمیشن کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر مکمل ڈیٹا کی بنیاد پر سیلاب سے ہونیوالے معاشی اثرات کا حتمی تجزیہ جاری کیا جائیگا تاکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر بحالی کے اقدامات کو موثر انداز میں ترتیب دیا جا سکے موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے زیادہ تر وہ ممالک دو چار ہیں جن کا زمین کے موسم کو اس حال تک پہنچانے میں کوئی کردار نہیں وہ اس ترقی کے حصے دار تو نہ بن سکے جو اس انرجی سے آئی لیکن وہ اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمارا ملک ان میں سرِ فہرست ہے اس تناظر میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ آخر دنیا کے ان پسماندہ علاقوں کے لوگوں کا کیا قصور ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں برپا ہونے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بھوک اور میل نیوٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں حالانکہ ابھی تو ان علاقوں تک صنعتی انقلاب کے ثمرات بھی پوری طرح نہیں پہنچے جو اس ماحولیاتی بحران کا سبب بنا ہے کانفرنس آف پارٹیز اور اس پارٹی کے ارکان جس طرح کچھوے کی مانند موسمیاتی تبدیلیوں کے حل کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کو دیکھ کر خوف آتا ہے کوئی جنگ اِتنی تباہی پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی جتنی موسم کی تبدیلی سے ہوسکتی جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہی شروع ہوچکی آخر اب انتظار کس چیز کا ہے دنیا تیزی سے تباہ کن گرمی کے قریب بڑھ رہی ہے حالات گلوبل وارمنگ سے بڑھ کر گلوبل بوائلنگ کی طرف جا رہے ہیں اقوام عالم نے متحد ہو کر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کئے تو کلائمیٹ چینج کنٹرول کرنے کے طے شدہ اہداف کا حصول مشکل ہو جائیگا کلائمیٹ چینج کے باعث فوسل فیول انڈسٹریز میں مرحلہ وار کمی نہ ہونے اور کاربن کا اخراج روکنے میں عزم کی کمی قحط خشک سالی سیلاب سطح سمندر میں اضافے ماحولیاتی عدم مساوات غذائی عدم تحفظ ورلڈ فوڈ مارکیٹ کے بحران خوراک اور خصوصا زرعی پیداوار میں کمی آبادیوں کی نقل مکانی پانی اور توانائی کی سپلائی چین متاثر ہونے اور گلیشیئرز پگھلنے سے دنیاکیلئے خطرات بڑھ گئے ہیں متوقع اثرات پہلے سے زیادہ شدید ہیں اور دنیا تیزی سے خطرناک نتائج کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی انصاف یا موافقت کا مسئلہ حل کئے بغیر ہماری معیشتیں غذائی تحفظ اور عالمی استحکام خطرے میں ہے ان کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کو گرم ہوتے معدنیاتی ایندھن سے دور رکھنے میں مدد کرنے شمسی توانائی اور ونڈر انرجی جیسی صاف توانائی کی جانب منتقل ہونے کیلئے کم از کم 10کھرب ڈالر کی ضرورت ہے موسمی تبدیلیوں کے باعث یکے بعد دیگرے بحرانوں سے ورلڈ فوڈ مارکیٹ میں بحران خطوں میں خوراک کی عدم دستیابی اور مقامی آبادیوں کی نقل مکانی جیسے پیدا ہونیوالے مسائل مستقبل میں امن اور سلامتی کیلئے خطرات بن سکتے ہیں پاکستان کے عوام اس وقت موسمیاتی ناانصافی کے سنگین حساب کتاب کا شکار ہیں پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاس گیسوں کے 1فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے اس کے باوجود وہ انسانی ساختہ موسمیاتی تبدیلی کی بڑی قیمت ادا کر رہا ہے یہ تبدیلیاں جو مستقبل کیلئے خطرہ ہیں انہیں یوں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی دنیا کے وعدوں کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جاسکتا ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کیلئے ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا جو اعلان کیا ہے آئین اور قانون میں اس کا کوئی ذکر نہیں حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کا لفظ ملک کی موجودہ سیلابی صورت حال کی حساسیت کو اجاگر کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے وفاقی حکومت کو صوبوں کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھنا ہے وزیر اعظم آئندہ چند روز میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کے ساتھ اجلاس میں لائحہ عمل طے کرینگے اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010اور ویست پاکستان آفات ایکٹ 1958کے تحت اقدامات کئے جائیں گے کسانوں کو ریلیف دینے کیلئے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا جائیگا وزرائے اعلی کی مشاورت سے کسانوں کیلئے معاوضے یا قرضوں کی سہولت کا فیصلہ ہوگا ملک میں فصلوں کی تباہی کے بعد غذائی قلت کے خطرات کا جائزہ لیا جائیگا حکومت کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج کسانوں کو فوری ریلیف دینا اور زرعی پیدوار کو بحال رکھنا تاکہ خوراک کا بحران پیدا نہ ہو اس کے لئے بیج کھاد زرعی ادویات اور سو فری قرضوں کی فراہمی ناگزیر ہے ساتھ ہی ایسے بیج اور طریقہ کاشت متعارف کرانے کی بھی اشد ضرورت ہے جو موسمیاتی دبا برداشت کرسکیں زرعی زمین کی بحالی کیلئے ڈرینج سسٹم کی مرمت چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور زمین کی زر خیزی کیلئے سبز کھاد جیسے اقدامات ناگزیر ہیں عالمی برادری موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کاسامنا کرنیوالے ملکوں کی مدد ضرور کر رہی ہے تاہم یہ مدد اتنی نہیں ہے کہ اس تباہی کو روکا جاسکے جبکہ خود پاکستانی معیشت میں بھی اتنی جان موجود نہیں ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کا مقابلہ کرنے کیلئے وسائل فراہم کرسکے پاکستان کو سنگین صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے مسئلہ پاکستان کی آنیوالی نسلوں سے متعلق ہے جس سے مزید پہلو تہی نہیں برتی جا سکتی اب بھی وقت ہے ہم اپنے طور پر جو کچھ کرسکتے ہیں وقت ضائع کیے بغیر پورے اہتمام کے ساتھ اس کا آغاز کردیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے