کالم

محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

علامہ اقبالؒ نے ایک مسلمان عادل اور دینداربادشاہ ہونے کی وجہ سے محمود غزنوی کے کی شان میں اپنے جواب شکوہ نظم میں ایک مشہورشعر کہا تھا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اورنہ کوئی بندہ نواز
سطنت غزنویہ کا بانی ایک ترک غلام سنکتگین تھا۔ محمود غزنوی اس کا بیٹا اس کی وفات کے بعد سلطنت غزنویہ کا حکمران بنا۔ بات اس طرح ٹھی کہ سامانی حکومت کمزرو ہو گئی تھی۔ اس کے صوبہ دار خود مختیار ہو گئے۔ ان ہی میں سے ایک صوبہ دار سبکتگین نے افغانستان کے جنوب میں شہر غزنوی میں366ھ میں ایک آزاد حکومت قائم کر لی۔ یہ حکومت تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ حکومت 976ءتا1186ءتک 210 سال قائم رہی۔ اس کا درالحکومت افغانستان کا شہر غزنوی تھا۔ اس سلطنت کے سب سے مشہور بادشاہ محمود غزنوی تھا۔محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے تھے۔ سومنات پر جب حملہ کیا تو مندر کے بجاریوں نے مال و دولت کا ڈھیر محمود کے سامنے پیش کر دیا۔ مگر محمود غزنوی نے مشہور تاریخی جملے کیے تھے کہ محمود غزنوی بت شکن ہے بت فروش نہیں۔ اس طرح محمود مسلمان عوام میں بہت مشہور ہوا تھا۔سبکتگین نے غزنوی پر حکومت قائم کرنے کے بعد خرسان پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مترتبہ ہندوستان میں درہ خیبر کے راستے داخل ہو ئے تھے۔ اس زمانے میں لاہور میں ایک ہندو راجہ جے پال کی حکومت تھی۔ اس کی حکومت پشاور سے آگے کابل تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی سرحدیں سبکتگین کی حکومت تک تھیں۔ جب راجہ پال نے دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت پھیلتی جارہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج کے ساتھ سلطنت غزنویہ پر حملہ کر دیا۔ لڑائی میں سبکتگین نے راجہ جے پال کی ایک بڑی فوج کو شکست فاش دی۔ راجہ جے پال کو سبکتگین نے گرفتار کر لیا گیا۔ راجہ جے پال نے خراج دینے کے وعدے پر رہائی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لاہور چلا گیا۔ لاہور پہنچ کر اپنے دعدے سے منکر ہو گیا۔ اس بد عہدی کی وجہ سے سبکتگین نے راجہ جے پال کی حکومت پر حملہ کر دیا۔ راجہ جے پال کو شکست فاش ہوئی۔ سبکتگین نے پشاور کو اپنے سلطنت میں شامل کر لیا۔ سبکتگین بیس سال حکومت کرنے کے بعد وفات پا گیا۔ اس کے بعد اس کے بہادر اور نڈر بیٹے محمود غزنوی نے سلطنت غزنویہ کی حکومت سنبھال لی۔ محمود غزنوی سبکگین سے بھی بڑ ا بادشاہ ثابت ہوا۔ محمود غزنوی بچپن سے ہی بڑانڈر اور بہادر تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ ساری لڑائیوں میں شریک رہا تھا۔ بادشاہ بننے کے بعد اس نے سلطنت غزنویہ کو بڑی وسعت دی۔ محمود کامیاب سپ سالار اور فاتح تھا۔ شمال میں اس نے اس وقت کے حکومت خورزم پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد اس کا پالا سمر قند کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں سے پڑا۔ ان چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے محمود کی اطا عت قبول کر لی۔ اس زمانے میں بخارا اور سمقند کاشغر کے ایک خانی حکمران کے قبضے میں تھی۔ خورازم کی ایک چھوٹی سی حکومت آل مامون کے نام سے قائم تھی۔ محمود نے ان سب پر بڑی مہارت سے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد مغرب میں رے، اصفہان، اور ہمدان کو فتح کیا جو بنی بویہ کے قبضے میں تھی۔ مشرق میں موجودہ ،سندھ، پنجاب اور بلوچستان وغیرہ فتح کر لیے۔ محمود عدل و انصاف کی وجہ سے بھی مشہور ہوا۔ اس کے دور کے سب سے زیادہ مشہور لوگ فردوسی اور البیرونی کزرے ہیں۔ محمود کے آخری دور میں اس کی بیٹے مسعود کے زمانے میں غزنوی سلطنت کے شامل اور جنوب کے حصوں پر وسط ایشیا سلجوقی ترکوں نے قبضہ کرلیا۔ سلطنت غزنویہ اس وقت مشرقی افغانستان اور موجودہ پاکستان کے علاقوں تک رہ گئی تھی۔ غزنویہ سلطنت کے سلطان ابراہیم کا نام بھی مشہور ہے۔ اس نے چالیس سال تک حکومت کی تھی۔ اس نے سلجوقیوں سے اچھے تعلوقات قائم کیے۔ ہندوستان میں مذید فتوحات کیں۔ اس کے عہد میںہندووں نے مسلمانوں کو پنجاب سے نکالنے کی کوششیں کیں۔ مگر ابراہیم کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ابراہیم نے اس کے بعد دہلی تک کا ہندوستانی علاقہ فتح کر لیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے