ملتان کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ملتان سے جرنیلی سڑک پر مخدوم پور اور تلمبہ دو پرانے اور تاریخی شہر ہیں۔اب یہ دونوں قصبہ جات ضلع خانیوال میں شامل ہیں۔مخدوم پور پہوڑاں کی وجہ شہرت کھڈی پر تیارہونے والی مصنوعات ہیں، اس شہر کا کھدر ملک اور بیرون ملک جایا کرتا تھا ۔اس شہر میں 1874ءمیں پرائمری سکول قائم کیا گیا تھا جوکہ اب ہائیر سیکنڈری سکول ہے۔مخدوم پور میں ایک ریلوے اسٹیشن بھی ہے ، یہ ریلوے اسٹیشن 1876 ءمیں قائم کیا گیا۔برطانوی دور میں ہر چھ کلومیٹر کے بعدایک ریلوے اسٹیشن بنایا جاتاتھا۔برطانیہ دور میں دوردراز علاقہ جات کو بھی ریلوے سے منسلک کیا گیا تھا،اس سے جہاں دفاعی ضرورت پوری ہوتی تھی ، وہاںاس کے ساتھ عوام کو بھی سفری سہولت مل گئی تھی۔اب تو وطن عزیز پاکستان میں سینکڑوں ریلوے اسٹیشن ویران اور ختم ہوگئے، ریلوے لائنز بھی تمام ہوگئیں ، گو کہ ریلوے سب سے آرام دہ اور سستی سفر ی سہولت ہے۔دراصل اب ملک و ملت ترجیحات میں شامل نہیں ہے، اب تومغرب اور دیگر ممالک میں جائےدادیں بنانا ترجیحات میں شامل ہے۔ اس لئے وطن عزیز پاکستان میں سیٹل مل، ریلوے ، پی آئی اے وغیرہ خسارے میں ہیں اور ہرطرف کرپشن ہی کرپشن ہے ۔ توانائی کے ذرائع کی قیمتیں بہت زیادہ ہونے سے ملک وملت کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے لیکن وطن عزیز میں ہر وہ کام کیا جارہا ہے جس سے ملک اور عوام کا نقصان ہو ، بحرحال ارباب اختیاراور عوام کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ترجیحات میں سب سے پہلے پاکستان ہونا چاہیے،پاکستان میں اتنے خوبصورت اور تارےخی مقامات ہیں ،جس سے سالانہ اربوں ڈالر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔مخدوم پور ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے لیکن اس شہر کو سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ مخدوم پور میں ایک ایسا سکول بھی ہے جو کھبی ایک ٹھگ کا ٹکانہ ہوا کرتا تھا ، پھر وہ گرودوارہ بن گیا اور بعدازاں وہ سکول بن گیا۔سجن ٹھگ کا ٹھکانہ پہلے گرودوارہ اور پھر سکول کیسے بنا؟ نام سجن لیکن کام ٹھگ۔اس علاقے میں ایک ٹھگ رہتا ہے، اس کانام سجن تھا۔ اس نے مخدوم پورمیں ایک سرائے بنوایا تھاجو مسافر وہاں قیام کرتا تھا،وہ رات کو اس مسافرکو لوٹتا تھا، لوٹنے کے بعدا س کو قتل کرکے لاش کنوئیں میں ڈالتا تھا۔سولہویں صدیں میں گورونانک نے پاک پتن سے تلمبہ جاتے ہوئے یہاں قیام کیا تھا،سجن ٹھگ بابا گورونانک کو بھی لوٹنا چاہتا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوا۔ گورونانک نے سجن ٹھگ سے کہا کہ "کانسی روشن اور چمکدار ہوتی ہے لیکن اگر اسے رگڑا جائے تو اس کا سیاہ پن ظاہر ہوجاتا ہے ، اسے دھونے سے اس کی ناخالصیت کھبی ختم نہیں ہوتی ،چاہے اسے سو بار دھویا جائے۔” یہ الفاظ سن کر سجن ٹھگ بہت متاثر ہوا اوروہ گناہوں سے توبہ تائب ہوگیا۔وہ گورونانک کا بیلی یعنی دوست بن گیا۔سجن ٹھگ نے اپنے سرائے کو گردوارے کی شکل دیدی ۔اس گردوارے کے درمیان گروستان میں نیچے مرد اور بالائی منزل میںخواتین طواف کرتی تھیں۔کہتے ہیں کہ یہ موجودہ عمارت ڈیڑھ سوسال قبل سردار ککٹر مل سنگھ نے بنوائی تھی لیکن بعض روایات کے مطابق یہ بلڈنگ تقسیم پاک وہند سے چند سال قبل بھائی جودھ سنگھ نے بنائی تھی۔مخدوم پور اےک قدےم شہر ہے اور ےہ صوبہ پنجاب کے تارےخی مقامات میں سے اےک ہے۔مخدوم پور میں سکھوں کا گردوارہ اےک اہم مقام ہے ، چونکہ آجکل مخدوم پور میںسکھ مذہب کے پےروکار نہیں رہتے ہیں،اس لئے حکومت پنجاب نے اسی گردوارہ میں گورنمنٹ ہائر سےکنڈری سکول قائم کیا ہے، جہاں بچے تعلیم کے زےور سے آراستہ ہوتے ہیں اور ےہاں نئی نسل کی آبےاری ہوتی ہے ۔حکومت پنجاب کا ےہ اےک احسن اقدام ہے کیونکہ اس سے گردوارہ کی عمارت محفوظ رہے گی۔جس دن ہم مخدوم پور گئے تھے ، اس دن سکول کی چھٹی تھی لیکن وہاں کے مقامی ٹیچر نور خان صاحب نے سکول کا دروازہ کھلوایا ۔ماسٹر نور خان صاحب ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ وہ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اوراُن سے مل کر دلی خوشی محسوسی ہوئی۔وہ چھٹی کے دن کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گئے تھے، جب اُن سے رابطہ ہواتووہ اپناکام چھوڑ کر گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول مخدوم پور پہنچ گئے اور ہمیں گردوارے اور سکول کی تاریخ کے بارے میںبتایا ۔اساتذہ کرام قابل احترام ہیں اور بیرون دنیا میں اساتذہ کرام کو وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے لیکن وطن عزیز میں اساتذہ کرام سے درس وتدریس کے علاوہ طرح طرح کے کام لیے جاتے ہیں۔ایک مرتبہ مجھے شمالی علاقہ جات میں مغربی ممالک کے چند اساتذہ ملے جو ایک ماہ کے سیاحتی ٹور پر آئے تھے، انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم حکومت کے خرچ پر ہرسال سیاحتی ٹورز پر مختلف ممالک میں جاتے ہیں۔وطن عزیز پاکستان میںاساتذہ کےلئے کم ازکم اپنے ملک کے سیاحتی اور تاریخی مقامات دکھانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔بحرحال ماسٹر نور خان صاحب سے ہمیں سیکھنے کا بہت اہم موقع ملا ۔ انھوں نے ہمیں وہ کنواں بھی دکھایا جس کا پانی اس وقت استعمال کیا جاتا تھا اور اب اسی کنواں کا پانی سکول کے اساتذہ اور بچے پیتے ہیں۔ وہ کمرے بھی دکھائے جن کمروں میں سکھ یاتری قیام کرتے تھے ،اب ان کمروں میں طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ اب بھی انڈیا، آسٹریلیا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک سے سکھ یاتری یہاں آتے ہیں۔وطن عزیز میں میڈیا کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ کرمنل رپورٹرز یا حادثاتی خبروں کی بجائے ایسی خبروں اور رپورٹوں پر توجہ دیں جس سے بیرون دنیا میں پاکستان کے امیج میں مزید بہتری ہوجائے، اس کے علاوہ تاریخی اور سیاحتی مقامات کے بارے معلوماتی پروگرام اور رپورٹیں چلائیں تاکہ ان کے بارے میں دنیا کومعلوم ہوسکے۔وطن عزیز پاکستان میں سیاحوں کو دکھانے کےلئے بے شمار تاریخی اور سیاحتی مقامات ہیں، جن سے پاکستان سالانہ اربوں ڈالرز کماسکتا ہے،جس سے وطن عزیز پاکستان کے معاشی حالات بہترین ہوسکتے ہیں۔