کالم

معاملہ فہمی؟

بصرہ کے ایک مشہور تاجر شیخ راغب نے کسی بات سے ناراض ہوکر اپنی بیوی ناصرہ خانم کو پہلی بار طلاق دی تو اْس سے غصے میں کہا آج اور ابھی تم ”اپنے میکے چلی جاؤ!
ناصرہ خانم نے ترت جواب دیا ”نہ میں میکے جاؤں گی، اور نہ ہی اس گھر سے باہر قدم رکھوں گی جب تک میری جان نہ نکل جائے!”
شیخ راغب نے کہا ”میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے، اب میری تم سے کوئی حاجت نہیں، میرے گھر سے نکل جاؤ!”
ناصرہ خانم نے بڑے پرسکون لہجے میں کہا ”میں کہیںنہیں جا رہی اور تمہارے لئے مجھے اس گھر سے نکالنا جائز بھی نہیں، جب تک میری عدّت پوری نہ ہو جائے۔ اور اس دوران میری نان نفقہ کی ذمہ داری بھی تم پر ہے۔”
شیخ راغب نے غصے سے کہا ”یہ تو گستاخی اور بے ادبی ہے!”
ناصرہ خانم نے جواب دیا ”میں یہ خود سے نہیں کہہ رہی، بلکہ یہ اللہ تبارک تعالیٰ کا کلام ہے:”پھر اس نے قرآن کی سورة الطلاق: آیت 1 دہرائی جس کا ترجمہ ہے : اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدّت کے وقت پر طلاق دو اور عدّت کا شمار رکھو، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، سوائے اس کے کہ وہ کسی صریح بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ یہ اللہ کی حدود ہیں، اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے، یقیناً وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرتا ہے ۔
یہ سن کر شیخ راغب نے غصے سے اپنی عباء جھاڑی اس کی طرف دیکھا اور زور سے دروازہ پٹختے ہوئے بڑبڑایا: ”اللہ کی پناہ، یہ عورت تو مصیبت ہے مصیبت!”
ناصرہ خانم نے مسکرا کر آئینے میں اپنا سراپا دیکھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، خود کو سنبھالا اور اس کے بعد روزانہ خوبصورت کپڑے پہنناشروع کردئیے قصدًاگھر کو خوشبو سے معطر کرتی،پورا بناؤ سنگھار کرتی،عطر لگاتی،اور جب بھی شیخ گھر آتا یا نکلتا، وہ اس کے سامنے موجود ہوتی۔ پانچ دن بھی نہ گزرے تھے کہ اس کے خاوندکا دل موم ہونے لگا پھر ایک دن اس نے اپنی باتوں سے ناصرہ خانم کو لبھانا شروع کردیا یعنی تیر نشانے پر جالگا وہ دل ہار بیٹھاور بیوی سے رجوع کر لیا۔ ایک دن ناصرہ خانم نے ناشتہ تیار کرنے میں تاخیر کر دی شیخ راغب نے غصے سے کہا:
”یہ میرے حق میں کوتاہی ہے، یہ کسی مومن عورت کے شایانِ شان نہیں!”
ناصرہ خانم نے نرمی سے جواب دیا ”اپنے مومن بھائی کے بارے میں اچھے گمان رکھو، حسنِ ظن بہترین صفات میں سے ہے، اور یہ دل کے سکون اور دین کی سلامتی کا ذریعہ ہے۔ جس نے لوگوں کے بارے میں اچھا گمان رکھا، اْس نے ان کے دل جیت لئے اور کامران ہوا!”
شیخ راغب بولا: ”یہ باتیں تمہاری کسی کوتاہی کو جواز نہیں دے سکتیں کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ میں بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکلوں؟”
ناصرہ خانم نے مسکراکرکہا جواب دیا ”سچے مؤمن کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کے دئیے ہوئے تھوڑے پر بھی قناعت کرے۔” ایک حدیث ہے (ترجمہ): وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اْسے اتنا رزق ملا جو کافی ہو، اور اللہ نے اسے جو دیا اْس پر قناعت عطا فرمائی۔ (صحیح مسلم، حدیث: 1054)
شیخ راغب نے منہ بسوڑتے ہوئے کہا : ”تو میں اب کچھ بھی نہیں کھاؤں گا!”
ناصرہ خانم نے مسکرا کر کہا: ”تو پھر تم نے ا للہ کے پیارے نبی ۖ کی حدیث ِ مبارکہ سے کچھ نہیں سیکھا”
شیخ راغب بغیر کچھ کہے غصے میں نکل گیا۔ واپس آیا تو بھی خاموش رہا۔رات کو اس نے بستر چھوڑ کر نیچے فرش پر سونا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ دس دن تک چلتا رہا۔دن میں ناصرہ خانم اْس کے تمام کام کرتی، کھانا بناتی، پانی دیتی، اور رات کو دلکش لباس پہن کر، خوشبو لگا کر اپنے بستر پر لیٹتی لیکن اْسے دانستہ طور پر کچھ نہ کہتی۔
گیارہویں رات شیخ راغب نیچے سو گیا، پھر کسی بہانے اپنی بیوی کو پکارا :ناصرہ خانم نے اشارے سے اپنے پاس آنے کو کہا تھوڑی دیر نخرے دکھانے کے بعد وہ اس کے پلنگ پر آگیا ناصرہ خانم نے ہنستے ہوئے کہا : اب ” کیوں آئے ہو؟”
شیخ راغب نے کہا: ”آئی ایم سوری! میں پلٹ آیا ہوں”
ناصرہ خانم نے کہا: ”کششِ ثقل تو کہتی ہے کہ لوگ اوپر سے نیچے پلٹتے ہیں، تم نیچے سے اوپر کیسے پلٹ آئے؟” وہ مسکرایا اور کہا: ”کششِ ثقل سے زیادہ طاقتور ایک اور کشش ہے بیوی کی کشش!”
پھر خوشی سے بولا: ”اگر ساری عورتیں تم جیسی ذہین ہوجائیں تو کوئی مرد اپنی بیوی کوکبھی طلاق نہ دیتا گھروں کے سارے مسائل ختم ہو جاتے”
پھر اس نے ایک حدیث بیان کی: (ترجمہ): جو عورت اپنے شوہر کے بد اخلاقی پر صبر کرے، اللہ تعالیٰ اسے حضرت آسیہ بنت مزاحم کے برابر ثواب عطا فرماتا ہے۔
شیخ راغب نے محبت سے کہا: ”اے خانم! تم میرے لئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بہترین معاون ثابت ہوئی۔ اللہ تمہیں جزائے خیر دے اور ہمارے درمیان کبھی جدائی نہ ہو”۔ اس طرح ایک بیوی نے اپنی ذہانت اور معاملہ فہمی سے اپنا گھرتباہ ہونے سے بچالیا ( ایک عربی پوسٹ کا اردو ترجمہ)۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے