کالم

موجودہ بجٹ سمجھ سے باہر

وفاقی حکومت کے پیش کردہ آدم خور بجٹ نے ہر طرف ہاہاکار مچادی ہے اقتصادی ماہرین اور عوام کو اس بجٹ کی کوئی سمجھ نہیں آئی یوں لگتاہے جیسے غربت کی چکی میں پسے بے بس اور بے کس پاکستانیوں پر ایک کوہ گراں ٹوٹ پڑا ہو — 14000 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کا مطلب ہے کہ بالواسطہ، اشیائے خورونوش ، پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، ادویات سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوجائے گا اوپر سے ا لگ ظلم یہ ہے کہ پاکستان پر مجموعی قرض 76 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے جس کے معانی ہیں پاکستان کا بچہ بچہ لاکھوں کا مقروض ہوچکاہے ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو گھروں، دکانوں میں مزدوری کرتے ہیں اور جو گلی کوچوںمیں بھیک مانگتے پھرتے ہیں 14000 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا ہدف ایک مخصوص سوچ، روئیے اور ایک پالیسی کامظہرہے جو ظالم حکمران عوام کی رگوںسے خون کی ایک ایک بوند نچوڑنا چاہتے ہیں اس وقت پاکستان کی آبادی تقریباً 25 کروڑ ہے جن میں 10کروڑ ان بچوں، معذوروں ، بیماروں ، بوڑھوں ، بیروزگاروں اور خواتین کو نفی کردیا جائے جو کسی نہ کسی انداز سے معیشت کا حصہ نہیں یا پھر خالصتاً گھریلو ہیں باقی بچے15 کروڑ افراد جن پر 14000 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جارہے ہیں اقتصادی ماہرین پر ہی موقوف نہیں یہ حساب ایک عام آدمی بھی لگاسکتاہے کہ ہر پاکستانی کے حصہ میں سالانہ 93 ہزار روپے سے زائد آتے ہیں۔ یہ رقم ماہانہ تقریباً 7،800 روپے بنتی ہے اس لحاظ سے اس سال 2025ـ2026 کیلئے پیش کیا جانیوالے بجٹ آدم خور بجٹ ہی کہاجاسکتاہے ایک عام آدمی جو پہلے ہی مسائل کا ماراہواہے تنخواہ دار ملازمین ، مزدور ، کسان ،رکشے والا، فروٹ فروش ریڑھی والا،سبزی بیچنے والا ، نجی شعبہ میں12-12 گھنٹے کام کرنے والے شہری کیس۔ حکومتی اخراجات پورا کرنے کیلئے اتنے ٹیکسز دے سکتے ہیں یہ آج کے حکمرانوں کا مسئلہ نہیں نئے وفاقی بجٹ نے عوام کا جو حشر نشر کرکے رکھ دیا اسے حکمرانوںکی ادا سے تعبیر ہی کیا جاسکتاہے اس بجٹ میں عوام پر 1400 ارب کے ٹیکسز لگانے کے باوجود اب کہا جا رہا ہے کہ مزید500ارب کے نئے ٹیکسزلگا نے کیلئے منی بجٹ بھی لایا جاسکتاہے ایک طرف تو عوام کا یہ حال کیا جارہاہے تو دوسری طرف بجٹ میں اس وزیرِ اعظم ہاؤس کیلئے مختص رقم گاڑیوں کی مرمت کیلئے 9 کروڑ ،ڈسپنسری کیلئے ڈیڑھ کروڑ ،باغیچے کیلئے 4 کروڑ 48 لاکھ،وزیر اعظم جیب خرچ کیلئے 22 کروڑ کی منظوری دی جارہی ہے اس طرح وزیر اعظم ہاؤس کے مجموعی اخراجات میں 14 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے یہ سب قوم کے ٹیکس کے پیسے ہیں پاکستانی قوم کے خون پسینے کی کمائی ۔ ویسے اب وقت آگیا ہے کہ عوام اتحاد کا مظاہرہ کریں تاکہ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیںمیسر آسکیں آج عوام کی اکثریت پینے کے صاف پانی، سستا علاج معالجہ، معیاری تعلیم اور انصاف سے محروم ہے اور انہیں اندھیری سیاہ رات میں اصلاح ِ احوال کیلئے کوئی ٹمٹماتا جگنو بھی دکھائی نہیں دیتا اس لئے عوام کو شدید تحفظات ہیں اس وقت عام آدمی کے احساسات ہیں کہ ملک کی ایلیٹ کلاس ، بیوروکریٹس، ارکان ِ اسمبلی پر مشتمل اشرافیہ کسی قسم کوئی قربانی نہیں دینا تو دور کی بات وہ اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کوتیارنہیں اب عام آدمی کو سوچناہوگا ہرسال اربوں روپے کا خسارہ، دن بہ دن بڑھتی ہوئی کرپشن، ناکام حکومتی پالیسیاں اور اشرافیہ کی عیاشیاں کا بوجھ کب تلک اٹھاتے رہیں گے ویسے یہ سب کچھ اس غریب ملک کے ساتھ بہت بڑاظلم ہے پاکستانی قوم ملک کیلئے ہرقسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے لیکن اشرافیہ کے اللے تللوں کیلئے قربانی دینے کیلئے عوام کو مجبور نہ کیا جائے اب تو سب پر آشکار ہوچکاہے کہ اس بجٹ میں عوام کیلئے کوئی خوشخبری نہیں ہے یہ مکمل طورپرIMF کی شرائط کے تابع ہے۔ وہ ساری شرائط بجٹ میںآ رہی ہیں جس سے اس سال حکومت نے بقلم خود اقتصادی جائزے میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان پر مجموعی قرض 76 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا۔رواں مالی سال کے لیے قومی ترقیاتی پلان 4200 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، جو کہ پچھلے 2 برس میں 50 فیصد اضافہ ہے۔ شرح سود کو 23 فیصد سے کم کرکے 11 فیصد پر لایا گیا ہے جب کہ افراط زر 38 فیصد سے کم ہو کر 4 فیصد پر آ گئی ہے۔عالمی ادارے پاکستان کی موجودہ معاشی کارکردگی کو معجزہ قرار دے رہے ہیں وفاقی حکومت کے حصے میں اب 11 کھرب کے وسائل بچیں گے۔ تقریباً سوا 8 کھرب قرضوں کی ادائیگی میں چلے جائیں گے۔ بقیہ پیسے دفاع کے اخراجات میں خرچ ہو جائینگے۔گوںکا خیال ہے کہ موجود ہ حکومت کے ارباب ِ اختیار صرف بڑھکیں مارتے ہوئے اینی کارکردگی پر اتراتے پھرتے ہیں عام آدمی کو ریلیف دینے کے لئے ان کے پاس کوئی پروگرام ہے نہ حکمت ِ عملی ۔اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ملک کی ایلیٹ کلاس ، بیوروکریٹس، ارکان ِ اسمبلی نے طے کرلیا ہے کہ ہم نے کوئی قربانی نہیں دینی کیونکہ ان کو فری فسیلیٹی حاصل ہیں اس کا بین ثبوت ہے کہ اس طبقہ نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشربا اضافہ کرلیاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے