ملک بھر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور غریب عوام کو آنے والے بھاری مالیت کے بل ملک میں بے چینی پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں اور ان بلوں سے تنگ آئے عوام سڑکوں پر نکل آئے مگر حکومت نے عوامی زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے یہ کہہ کر نمک چھڑکا ہے کہ عوام مظاہرے کرے یا احتجاج ،بجلی کے بلوں میں اضافہ واپس نہیں لیا جائے گا ، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت سرکاری سطح پر ان بلوں میں نظر ثانی کا کوئی وعدہ تو کرتی یا کوئی نظر ثانی کرتی تاکہ وہ عوام جس پر وہ حکومت کررہے ہیں اور جس کے دیے ہوئے ٹیکسوں کی کمائی سے وہ پر سہولت زندگی گزاررہے ہیں ان کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہوجاتا مگر حکمران طبقہ بالکل بے حس بن چکا ہے اور آئی ایم ایف کے کہنے پر وہ غریب عوام سے غنڈہ ٹیکس وصول کرنے میں مصروف نظر آتا ہے کہ ایک غریب شخص بجلی کا ایک یونٹ استعمال کرنے پر تیرہ قسم کے غیر متعلقہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے یہ کیسی حکومت ہے جو غریب عوام کے دکھوں کا ازالہ کرنے کی بجائے مزید ان میں اضافہ کرتی چلی جارہی ہے جو ریاستیں ٹیکس وصول کرتی ہیں وہ اس کے بدلے میں عوام کو بہتر سہولیات اور ریلیف مہیا کرتی ہیں مگر یہاں تو صرف ٹیکس ہی ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں اور سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں غریب عوام کو نہ تو علاج میسر ہے اور نہ ہی ادویات ، سرکاری تعلیمی اداروں تعلیم نام کی کوئی شے نہیں ، اسی طرح تمام سرکاری اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے ، اس لیئے کہ مراعات یافتہ طبقے کو تمام سہولیات مفت فراہم کی جاتی جبکہ غریب عوام کو تمام تر ٹیکسز ادا کرنے کے باوجود کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دی جارہی ،حکومت سے دست بدستہ گزارش ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی طرف نہ دیکھیں بلکہ ان غریب عوام کی طرف دیکھیں جو خودکشی کرنے پر مجبور ہیں ، اپنی جمع پونچی بجلی کے بل کی ادائیگیوں پر خرچ کرنے پر مجبور ہیںکیونکہ ووٹ ان غریب عوام نے دینا ہے آئی ایم ایف نے نہیں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ،پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ انقلاب کا شرارا نہ بن جائے کیونکہ جن ممالک میں انقلاب برپا ہوئے ان کی بنیادی وجہ مہنگائی ، بے روزگاری ، ناانصافی اور ظلم تھا ،تاہم گزشتہ روز نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف فراہم کرنے کا فیصلہ نہ ہوسکا، اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط دیکھنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ وزارت توانائی کی جانب سے دی گئی سفارشات پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کافیصلہ کرلیا گیا ہے اور آئی ایم ایف کی منطوری کے بعد عوام کو ریلیف دیاجاسکتا ہے۔دوسری جانب بجلی کے بلوں میں ممکنہ ریلیف پر آئی ایم ایف کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، بجلی کے بلوں میں ٹیکسیشن میں کمی آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیے بنا نہیں کی جاسکتی اور بلوں میں ٹیکسیشن میں کمی کی تو آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس اور ٹیکسیشن کیلئے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے ہوا ہے جس کے تحت سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کو بجلی بلوں میں ریلیف نہیں دیا جاسکتا، دسمبر تک سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 4.37 روپے مزید فی یونٹ مہنگا ہوگا جس کے بعد سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 122 ارب وصول کیے جائیں گے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور بھاری بھرکم بلوں کے خلاف عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری رہا، انجمن تاجران لاہور نے ہڑتال کیلئے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم جبکہ انجمن تاجران پاکستان سپریم کونسل نے احتجاجی کیمپ لگانے کا اعلان کر دیا۔بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف صوبائی دارالحکومت لاہور میں شاہ عالم مارکیٹ کے تاجر سڑکوں پر نکل آئے اور ٹائر جلاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جبکہ انجمن تاجران لاہور کے صدر مجاہد مقصود بٹ نے حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ۔ بجلی کی قیمتوں کے خلاف ملتان ، راولپنڈی اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ملتان میں خونی برج کے انجمنِ تاجران نے بجلی کے بل نذر آتش کر دئیے اور ٹائر جلا کر حکومت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں اتنے ٹیکس زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے، محنت کش بجلی کے بل بھرے یا بچوں کو کھانا کھلائے، حکومت فوری طور پر بجلی کے بلوں میں اضافہ ختم کرے۔راولپنڈی میں پشاور روڈ لاری اڈہ کے قریب شہریوں نے بلز کیخلاف احتجاج کیا اور اس موقع پر احتجاجی مظاہرین کی جانب سے آئیسکو کیخلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بجلی کے زائد بلز میں کیا گیا اضافہ واپس لیا جائے اور ٹیکسز ختم کئے جائیں۔مظاہرے کے باعث پشاور روڈ پر ٹریفک معطل رہی جسے پولیس نے موقع پر پہنچ کر کلیئر کرایا۔علاوہ ازیں راولپنڈی کینٹ کی تمام تاجرتنظیمیں راولپنڈی چیمبرز آف کامرس کے باہر جمع ہوئیں، تاجروں نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کے خلاف تاجر تنظیموں نے احتجاج کیا ، مظاہرین نے فردوس چوک کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا جبکہ شہریوں نے چوک یاد گار سے جی ٹی روڈ تک ریلی نکالی۔مظاہرین کی جانب سے حکومت کے شدید نعرے بازی کی گئی اور بجلی کے بل بھی نذر آتش کئے گئے۔مظاہرین نے نگران حکومت سے بجلی کے اضافی بلوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔دوسری جانب بجلی کے زائد بلوں کا مداوا ہوا نہیں کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین پر نیا بوجھ ڈالنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔سرکاری تقسیم کارکمپنیز کیلئے اضافہ ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ہوگا،اورمنظوری کی صورت میں بجلی صارفین پر 35 ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا۔خیال رہے کہ ملک بھر میں بجلی کے زائد بلوں کیخلاف عوام سراپا احتجاج ہیں ، اورلاہور ، کراچی ،پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے کیے جارہے ہیں ،مظاہرین کی جانب سے بجلی کے بلوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب تاجر برادری نے بجلی بلوں میں کمی نہ ہونے کی صورت میں ملک بھر میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔جس طرح عوام حکومتی اقدامات کے خلاف اٹھ رہے ہیں ہمیں تو یہ حالات 1977کی طرح نظر آرہے ہیں ، پھر حکومت کے پاس کیا آپشن بچے گا کہ وہ عوام کے غیض و غضب سے کس طرح بچ پائے گی ، اللہ نہ کرے ایسا ہو مگر اس کیلئے حکمران طبقے کو اپنی شاہ خرچیاں ختم کرنا ہونگی۔
پرویز خٹک کے خوفناک انکشافات
سابق وزیراعظم اور چیئر مین تحریک انصاف سے جدا ہونے والے ساتھ ہر روز ایک تہلکہ خیز اور ہوشربا انکشافات کررہے ہیں ، ان کے ضمیر 9مئی کے واقعہ کے بعد سامنے آنے والی صورتحال نے جھنجوڑے ہیں اور یہ ایک دم مومن بن کر اب عوامی ہمدردیاں ایک بار پھر سمیٹنے کیلئے سچی باتیں کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں ، حالانکہ یہ لوگ گزشتہ 20سالوں سے اسی چیئر مین کے ساتھ تھے اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتے چلے آرہے تھے ، ان کا خیال تھا کہ عسکری اداروں کو بلیک میل کرکے اور ڈرا دھمکاکر وہ اقتدار کے سفر کو طول دینے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر اللہ نے ان کے سارے منصوبے ناکام بنادیئے اور 9مئی کے بعد ہونے والی پکڑ دھکڑ اور جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں نے ان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے چنانچہ اپنے مستقبل کو بچانے کیلئے یہ لوگ چیئر مین کا ساتھ چھوڑ گئے ، اسی حوالے سے سابق وزیر دفاع اور تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے سربراہ پرویز خٹک نے اعتراف کیا ہے کہ 9اور 10مئی کے واقعات منصوبہ بندی سے ہوئے۔ایک بیان میں پرویز خٹک نے کہا کہ 9، 10مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کیلئے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔ توڑ پھوڑ کا منصوبہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے وقت بنایا گیا،خیبر پختونخوا میں بنائی گئی ٹیم میں مراد سعید اور علی امین گنڈاپور شامل تھے۔سابق وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ فورس کی تیاری کےلئے نوجوانوں سے بھی حلف لیا گیا، دھرنوں اور جیل بھرو تحریک کا مقصد لاٹھی چارج اور گرفتاری کا خوف ختم کرنا تھا۔ انہیں تو 9 مئی کو پتہ چلا تھا کہ پی ٹی آئی میں ایک اور گروپ بھی تیار کیا گیا ہے، جس کا کام چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی صورت میں فوجی تنصیبات پر حملے کرنا تھا۔ پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے عسکری اداروں پر الزامات لگائے اور نہ ہی ان کے ساتھ خانہ جنگی کا معاملہ کیا ، یہ اعزاز صرف تحریک انصاف کے حصے میں آیا ہے ، اب مطالبہ یہ ہے کہ وطن دشمن عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ۔
اداریہ
کالم
مہنگی بجلی اور آئی ایم ایف سے اجازت لینے کا فیصلہ
- by web desk
- اگست 31, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 608 Views
- 1 سال ago