گزشتہ ہفتہ سے وطن عزیز پاکستان میں احتجاجی سیاست کے نام پر جو انتشار برپا کیا جارہا تھا گزشتہ روز اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس احتجاج نے کئی ماﺅں کی گودیں اجاڑ دیں۔کوئی کسی کی زہر آلود تقریروں کی وجہ سے احتجاج میں تھا تو دوسری جانب پاکستان کی حفاظت کرنیوالے پاک رینجرز کے شہید نوجوان تھے۔سوچیں ان ماﺅں پر کیا بیت رہی ہوگی جن کے بیٹے پاکستان کی سالمیت کیلئے اور وردی پہن کر ماﺅں کو الوداع کرکے بخوشی ڈیوٹی پر آئے ہونگے ۔ وہ بچے جن کے والد بچوں کو اللہ حافظ کہہ کر آئے ہونگے کہ بیٹا! ویکنڈ پر ملتے ہیں۔آج جب ان شہداءکے جسد خاکی گھروں کو پہنچے ہونگے تو کیا بیت رہی ہوگی ان کے خاندان پر۔کبھی سوچا ان فسادیوں نے؟زہر آلود تقاریر اور نفرتوں کے بیج بونے والوں نے کبھی سوچا؟ وفاق پر چڑھائی کرکے اربوں کا نقصان کرنیوالوں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ ملک کا کتنا نقصان ہورہا ہے؟قارئین کرام!پاکستان کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے تھے وہاں سے واپسی بڑی مشکل سے ہوئی۔حکومت پاکستان نے گزشتہ آٹھ ماہ کی انتھک محنتوں سے پاکستان میں معیشت بحال کی دوسری جانب پاکستان کی چٹان صفت مسلح افواج سیکیورٹی اداروں نے جانوں کے نذرانے دیکر امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنایا اور بنارہے ہیں ۔ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف کی کامیاب خارجہ پالیسیوں کی بدولت بڑے بڑے ممالک کے سربراہان پاکستان کا دورہ کررہے ہیں۔ایسے میں گھمبیر حالات پیدا کرنا ریاست کو چیلنج کرنااور پھر ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہو اور وفاق پر چڑھائی کردے۔اوپر سے وہاں کے حالات پر ان کی کوئی توجہ نہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔اسلام آباد پر سیاسی بونوں کی جانب سے چڑھائی پر ناکامی اور انتشاری دھرنے کے اختتام کے حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں شہداءکے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اجلاس کے دوران گفتگو کرتے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک مرتبہ پھر فساد برپا کیا گیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہترین حکمت عملی کے ذریعے اس سے نمٹا اور عوام کو سکون میسر آیا، فساد کی وجہ سے پاکستان بھر بالخصوص اسلام آباد میں معیشت کو نقصان پہنچا، کئی دن سے کاروبار نہ ہونے کے برابر تھا، دکانیں بند تھیں، تاجر دہائیاں دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹری مالکان، دیہاڑی دار مزدور سب پریشان تھے، ہسپتالوں میں مریضوں کو مشکلات کا سامنا تھا، جڑواں شہروں میں نظام زندگی معطل ہو چکا تھا۔ گزشتہ رات امن بحال ہونے کے بعد سٹاک ایکسچینج آج 99 ہزار تک پہنچ چکا ہے ۔ دنیا بھر میں مسلمہ اصول ہے، سرمایہ کاری وہاں ہوتی ہے جہاں امن و سکون ہو اور منافع کمانے کے بہت اچھے مواقع میسر ہوں۔ایسی خطرناک روش 2014ءسے پہلے نہیں تھی، اس سے پہلے کوئی اسلام آباد پر چڑھائی کا تصور بھی نہیں تھا، لوگ شہروں میں احتجاج کرتے تھے اور انہیں آئین و قانون کے مطابق پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے۔ 2014ءسے بدقسمتی سے اس خطرناک روش کی بنیاد ڈالی گئی، چینی صدر شی جن پنگ ستمبر 2014ءمیں پاکستان کے دورے پر آ رہے تھے، فسادیوں نے 126 دن فساد برپا کئے رکھا، اس کے نتیجہ میں چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور اپریل 2017ءمیں وہ پاکستان کے دورہ پر آئے۔وزیر اعظم نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ان فسادیوں نے پھر فساد برپا کیا، دوست ممالک کے مہمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، اس موقع پر سکیورٹی چیلنجز سے احسن انداز میں نمٹے، اجتماعی بصیرت اور منصوبہ بندی سے یہ کامیابی ملی، پاک فوج نے مکمل سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالی، سعودی وفد کے دورے کے موقع پر اودھم مچایا گیا، تخریب کاری کی گئی، غیر ملکی اسلحہ لے کر آتے ہیں، بے گناہ شہریوں کو تنگ، زخمی اور شہید کرتے ہیں، اسلام آباد پولیس کے اہلکار کو شہید کیا گیا اور بے شمار زخمی ہوئے۔ کوئی محب وطن شہری جس کو ملک نے عزت، تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع دیئے وہ اس ملک کا دشمن ہو جائے، پاکستان کی مخالفت کرے، اس حد تک چلا جائے کہ ملک برباد ہو جائے اور اسے کوئی پرواہ نہ ہو، خطرناک روش نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہمیں باہمی مشاورت اور صلاح مشورے سے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے کہ ہمیں پاکستان کی معیشت کو بچانا ہے، ترقی دینی ہے اور ملک کو خوشحال بنانا ہے یا ہمیں دھرنوں کا سامنا کرنا ہے، تمام وسائل اور توانائی اس میں جھونکیں اور ملکی معیشت کا کباڑہ ہونے دیں، ہمارے پاس دو راستے ہیں، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کونسا راستہ اختیار کرنا ہے، ظاہر ہے کہ ایک راستہ ہے اور وہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ ہے، حکومت، مقننہ اور تمام اداروں کو مل کر فیصلہ کرنا ہے کہ ان فسادیوں اور ملک دشمنوں کا ساتھ ہمیں نہیں دینا چاہئے۔وزیر اعظم نے بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کے دورہ کے حوالے سے بتایا کہ معزز مہمان ایک بار پھر پاکستان کے دورے پر آئے، ان سے ملاقات کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، وہ ان منصوبوں پر عملی پیشرفت کے خواہاں ہیں، دسمبر میں ایک پاکستانی وفد بیلاروس کا دورہ کرے گا اور معاہدوں کو حتمی شکل دیں گے، انہوں نے کہا کہ جب یہ پیشرفت ہو رہی تھی اس وقت فسادی بندوقیں اور ہتھیار لے کر آئے ہوئے تھے، ہمارے رینجرز اور پولیس کے جوان شہید ہوئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے، ہر روز میدان جنگ لگے گا تو توانائی کہاں خرچ ہو گی ۔وطن عزیز پاکستان اب مزید انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔گزشتہ روز جس طرح کے حالات پیدا کردیے گئے تھے اور اسلام آباد پر چڑھائی کی جارہی تھی خدا نخواستہ اگر پاکستان کے معزز مہمان بیلاروس کے صدر کی موجودگی میں ریڈ زون یا 2014 کی طرح کسی سرکاری عمارت میں بلوائی گھس جاتے تو پاکستان کو دنیا میں کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔بہرحال اسلام آباد پولیس، رینجرز، پنجاب پولیس، سندھ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیاسی بونوں کی ہر سازش کو ناکام بنادیا۔حالانکہ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے باعث صورتحال خراب ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کو کرم ایجنسی، پارا چنار میں امن و امان کی صورتحال کی بحالی پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنی چاہئے تھی۔