ڈونلڈ ٹرمپ نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے ایران پر حملے کے امریکی منصوبے کی منظوری دے دی ہے،یہ کہتے ہوئے کہ خبر رساں ادارے کو کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اسرائیل ایران تنازعہ کے بارے میں ان کی سوچ کیا ہے۔اس نے بعداس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ اگلے دو ہفتوں میں کوئی فیصلہ کر لیں گے۔ دفاعی حکام کے مطابق جنہیں بریف کیا گیا تھا، سوچ یہ ہے کہ صرف ایک ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ہی فوردو کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی ایک پریس کال میں، پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے ایک پیغام دیا کہ یہ براہ راست صدر کی طرف سے آیا ہے،اور ان سے منسوب ہے۔لیویٹ نے کہا کہ اس حقیقت کی بنیاد پر کہ ایران کیساتھ مستقبل قریب میں مذاکرات کے کافی امکانات ہیں،میں یہ فیصلہ کروں گا کہ میں آئندہ دو ہفتوں کے اندر جاؤں گا یا نہیں۔ایک دن پہلے ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایاکہ میرے پاس اس کے بارے میں آئیڈیاز ہیں لیکن میں نے حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے میں حتمی فیصلہ مقررہ وقت سے ایک سیکنڈ پہلے کرنا چاہتا ہوں۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے ایران جبر کے تحت مذاکرات نہیں کرتا،دباؤ کے تحت امن کو قبول نہیں کرے گا۔تنازع میں براہ راست امریکی شمولیت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اس وقت سامنے آئی جب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کواسرائیل کا عظیم دوست قرار دیا اورہمارے ساتھ کھڑے ہونے پر انکا شکریہ ادا کیا۔ پینٹاگون نے مشرق وسطیٰ میں متعدد جنگی جہاز بھیجے ہیں ،جن میں تین نیوی ڈسٹرائر اور دو کیرئیر اسٹرائیک گروپ شامل ہیں،جبکہ محکمہ خارجہ نے امریکی شہریوں کو خطہ چھوڑنے کا مشورہ دیاہے۔ایران اسرائیل جنگ نے خطے کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے،اس جنگ سے امریکہ کا امیج بری طرح خراب ہو رہا ہے۔ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ دنیا میں جاری تنازعات کا کوئی مثبت حل نکل آئے گا۔خود ٹرمپ بھی یہی تاثر دے ہے تھے وہ جنگوں کو ختم کریں گے،مگر وہ خود اس تاثر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ایک عالمی سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے دنیا بھر میں امریکہ کا تشخص متاثر ہوا ہے اور اس کی حمایت اور مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد سے دنیا کے بیشتر حصوں میں امریکا کا تشخص تیزی سے خراب ہوا ہے، اور ٹرمپ کے کردار اور پالیسیوں دونوں کو سروے میں بہت کم نمبر پر ملے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کیے گئے عالمی سروے کے نتائج میں سامنے آیا کہ سروے کیے گئے 24 ممالک میں سے 15 میں امریکا کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ ٹرمپ کی وجہ سے مجموعی طور پر امریکا کے بارے میں منفی تاثرات میں اضافہ ہوا ہے۔یورپ کے بیشتر حصوں میں بھی امریکا کے بارے میں خیالات تاریک ہو گئے ہیں، سروے کیے گئے تمام ممالک میں لوگوں کی اکثریت یوکرین، غزہ، امیگریشن اور موسمیاتی تبدیلی سمیت ٹرمپ کی تمام اہم عالمی پالیسیوں سے اختلاف رکھتی ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر پیغام
ہرسال 20 جون کو ورلڈ ریفیوجی ڈے یعنی مہاجرین یا پناہ گزین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو گزشتہ روز بھی منیا گیا۔دنیا بھر میں جنگ، تعصب، کشیدگی، سیاسی تناؤ، امتیازی سلوک اور دیگر قدرتی آفات کے باعث ہر ایک منٹ بعد آٹھ لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو کر دوسری جگہ نقل مکانی کرجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اوران کو درپیش مسائل سے آگاہی کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 4کروڑ37 لاکھ لوگ تارکین وطن کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ مزید 2کروڑ 75لاکھ افراد اپنے ہی ممالک میں بے سروسامانی کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس دن کے حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اس سال پناہ گزینوں کا عالمی دن دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کے پس منظر میں منایا جا رہا ہے جو لاکھوں افراد کو جبری بے گھر ہونے پر مجبور کر رہے ہیں، پناہ گزینوں کی ان کے پیارے وطن میں واپسی بہترین اور پائیدار حل ہے جسے حاصل کرنے کیلئے ہمیں اجتماعی کوشش کرنی ہوگی، جبری طور پر بے گھر ہونے اور پناہ گزینوں کے حالات کا بنیادی محرک ہونے کے ناطے عالمی تنازعات کو، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج بین الاقوامی قوانین کے مطابق بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے روکنا اور حل کرنا چاہیے، صرف پرامن ذرائع اور بنیادی وجوہات کو حل کرنے سے ہی ہم پناہ گزینوں کی طویل پناہ گزینی کے رجحان کو تبدیل کرنے کی امید کر سکتے ہیں، چار دہائیوں سے زائد عرصے سے، پاکستان نے قلیل بین الاقوامی حمایت کے باوجود، افغانستان میں عدم استحکام کے مختلف مراحل کے دوران، تنازعات سے بچنے کیلئے پاکستان میں آئے، لاکھوں افغان بھائیوں کی میزبانی کی ہے، اپنے گھر اور دل کھول کر پاکستانی عوام نے اپنے افغان بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ مثالی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا۔
عسکریت پسندی کو کچلنا وقت کا تقاضہ
جب دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کا انتظار کر رہی ہے کہ آیا امریکہ ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہو گا،یا نہیں۔ایسے میں بلوچستان میں،تنازعہ ایک بار پھر بڑھتا جا رہا ہے۔بدھ کے روز،جعفر ایکسپریس کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیااس بار جیکپ آباد کی مویشی منڈی کے قریب پٹریوں پر نصب ریموٹ کنٹرول دھماکہ خیز ڈیوائس کے ذریعے،جس سے چار بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،پیغام واضح تھا:غیر ملکی حمایت یافتہ علیحدگی پسند بلوچستان میں عدم استحکام کے درپے ہیں۔یہ سلسلہ وار حملوں کے بعد ہوتا ہے،جس میں دکی میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے اسٹیشن پر حملہ اور صوبے بھر میں دیگر فائرنگ شامل ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروپوں کی طرف سے تشدد میں مربوط اضافہ ایران پر اسرائیل کے حملے کے وقت ظاہر ہوتا ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ علیحدگی پسند تنظیمیں غیر ملکی پشت پناہی سے کام کر رہی ہیں۔ ان گروہوں کے عالمی حمایتیوں کی ایران میں جنگ سے توجہ ہٹانے کے بعد،پاکستان کے پاس فیصلہ کن کارروائی کرنے اور سرحد کے اطراف میں باغیوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کا نادر موقع ہے۔ایسے عناصر کو بھڑکانا پہلے بھی تباہ کن ثابت ہوا ہے کیونکہ عسکریت پسند ان علاقوں کو ایرانی اور پاکستانی سرزمین پر حملے کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ایران پہلے ہی اپنی سرحدوں کے اندر بھرپور جواب دے رہا ہے پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے لیے کوئی رواداری نہیں ہو سکتی،خاص طور پر جب اس میں ملوث افراد کو را اور موساد جیسی دشمن بیرونی ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل ہو یہ ایک بار اور ہمیشہ کے لیے خطرے کو ختم کرنے کا لمحہ ہے۔
اداریہ
کالم
ٹرمپ کی ایران پر حملے کے منصوبہ بندی اور تردید
- by web desk
- جون 21, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 93 Views
- 2 ہفتے ago