کالم

پاک امریکہ تعلقات کی نئی جہت

پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات سات دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط ہیں 20اکتوبر 1947کو دونوں ممالک رشتہ سفارت میں بندھے تھے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں تلخیاں عدم اعتماد اور کشیدگی شروع سے چلی آرہی ہے امریکہ کو پاکستان اور پاکستان کو امریکہ سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں اتفاق یہ ہے کہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کی ضرورت بھی رہے ہیں دونوں نے ایک دوسرے کے لئے بہت کچھ کیا بھی ہے لیکن پاکستان کا امریکہ کا ساتھ تعاون نسبتا بہت زیادہ ہے اپنی سلامتی کی قیمت پر، اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر پاکستان نے امریکہ کی انتہائی اہم اور حساس شعبوں میں مدد کی ہے سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو امریکہ سے حسن سلوک پر بالآخر کتاب لکھنا پڑی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا سفید ہاتھی میرے خون کا پیاسا ہے سابق صدر جنرل ضیا الحق نے امریکی امداد کے بارے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کا محاورہ استعمال کیا الغرض 70 سالوں کے دوران پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والے ہر حکمران کو امریکہ سے شکایات اور گلے رہے ہیں مگر ان شکایات اور گلوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون جاری رہا پاکستان سرد جنگ میں بھی امریکہ کا اتحادی رہا ہے بعد ازاں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بھی اب تک امریکہ کا اتحادی اور ہزاروں جانیں قربان کرچکا ہے اکیسویں صدی کے پہلے سال میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ دنیا بدل گئی ہے اس عالمگیر تبدیلی میں بھی امریکہ دہشت گردوں کے خلاف کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا تھا اگر پاکستان اس سے تعاون نہ کرتا بہتر سفارت کاری اور کامیاب حکمرانی کے اصول یہ ہیں کہ ہر قوم کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جب یہ قومیں ملتی ہیں مذاکرات کرتی ہیں تو اولین ترجیح ان مفادات کو حاصل ہوتی ہے جو دونوں قوموں کے یکساں ہوتے ہیں جس طرح دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے مفادات ایک سے ہیں دونوں کو ایسی تنظیموں سے خطرہ ہے امریکہ اور پاکستان دونوں میں یہ وارداتیں ہوچکی ہیں پاکستان میں ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں پاکستانی فوج اور شہریوں نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، ان یکساں مفادات پر دونوں ملک اشتراک کرتے ہیں اور ان مفادات کے حصول کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اس کے بعد وہ مفادات آتے ہیں جو یکساں نہیں ہوتے لیکن ان کا آپس میں ٹکرا بھی نہیں ہوتا ان پر دونوں کو کچھ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں کوشش یہ ہوتی ہے کہ تعلقات برقرار رہیں اور کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے لیکن جہاں دونوں کے مفادات آپس میں متصادم ہوں ٹکرارہے ہوں وہاں کسی ایک کو اپنے مفاد کی قربانی دینی پڑتی ہے باہمی مذاکرات میں دیکھا جاتا ہے کہ کون آسانی سے اپنے مفاد کو کچھ عرصے کے لئے موخر کرسکتا ہے مشکل یہ ہے کہ امریکہ نے تو اپنے مفادات طے کر رکھے ہیں وہ ان کی تکمیل کے لئے ہر ممکن کوشش بھی کرتا ہے جبکہ پاکستان نے اپنے قومی مفادات واضح طور پر طے نہیں کر رکھے مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتوں میں قومی مفادات پر ہماری پوزیشن بدلتی رہی ہے تاریخ بار بار یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ ایک خود غرض اور مطلب پرست ریاست ہے واشنگٹن اسلام آباد دوستی اتار چڑھا کے باوجود ویسی ہی رفاقت ہے جیسی دوستوں کے درمیان اچھے اور برے موڈ کے باوجود قائم و برقرار رہتی ہے پاکستان کے حکمران ہمیشہ امریکہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر رہے ہیں لیکن امریکہ کے دوہرے معیار اور پاکستان مخالف رویے کی وجہ سے عوام میں نفرت اور اشتعال کے جذبات جنم لے چکے ہیں، اس کا اعتراف امریکی عہدیدار بھی کرتے ہیں سات عشروں سے جاری پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان تعلقات کی مختلف جہتوں میں فوجی تعاون معاشی مفادات بین الاقوامی فورموں میں کردار، سماجی بہبود اور علاقائی امن و استحکام کے تقاضوں سمیت بہت کچھ آتا ہے جو ایسی ضرورت بن چکا ہے جس پر آگے بڑھنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے رات دو بجے اووول آفس میں اہم ملاقات سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کا دونوں کو عظیم رہنما قرار دینا پاکستان کی طاقت سٹریٹجک اہمیت اور نئی خارجہ پالیسی کے اعتماد کا اعلان ہے وزیراعظم شہبازشریف اور فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کا واشنگٹن آمد پر شاندار اور تاریخی انداز میں استقبال اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کی اہمیت کو کھلے دل سے تسلیم کر رہی ہیں امریکی سکیورٹی کے حصار میں پروٹوکول کے ساتھ موٹرکیڈ کی آمد اور وائٹ ہاوس میں دئیے گئے خصوصی استقبالیہ نے پاکستان کو ایک مرکزی عالمی پلیئر کے طور پر دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے وزیر اعظم پاکستان کی امریکی صدر سے ملاقات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی اور اعتماد بھرے روئیے نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی فوج نہ صرف ملکی سکیورٹی بلکہ عالمی امن اور اقتصادی توازن میں بھی ایک مضبوط اور فیصلہ کن فریق ہے عاصم منیر کی متوازن اور دور اندیش حکمتِ عملی پاکستان کو امریکا، چین خلیجی ممالک اور یورپ کے درمیان ایک گلوبل بیلنس ماسٹر کے طور پر پیش کر رہی ہے جبکہ ان کی قیادت یہ واضح کر رہی ہے کہ پاکستان خطے کے اہم فیصلوں میں ایک لازمی کردار ادا کر سکتا ہے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کا وائٹ ہاوس میں مشترکہ طور پر جانا پاکستان کے اندرونی استحکام اور پالیسی تسلسل کا بھی واضح ثبوت ہے یہ سول و ملٹری اتحاد عالمی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کیلئے اعتماد کی علامت ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں میں استحکام اور تسلسل موجود ہے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کو سفارتی وسیاسی تجزیہ نگار خطے کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں پاکستان اور امریکہ کے مابین معاشی شعبوں میں تعاون کے امکانات انسداد دہشت گردی سمیت دیگر کئی شعبوں میں شراکت داری کے معاملات دیگر کئی اہم امور بھی اس ایک گھنٹے کی ملاقات کا اہم حصہ تھے ، ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستانی معیشت کے استحکام کیلئے مختلف پروگراموں اور شراکت داریوں پر کام کرنے کا عندیہ خوش آئند ہے ڈونلڈ ٹرمپ اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئے جہت دینے اور معیشت کے استحکام کیلئے مختلف پروگراموں اور شراکت داریوں پر کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں تو وہ انہیں اس کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے پاکستان کے طالب علموں کیلئے امریکہ میں ویزے کی آسانیاں دی جائیں پاکستان کی یونیورسٹیوں تربیتی اداروں ووکیشنل انسٹیٹیوٹس میں امریکہ کو اپنی امداد بڑھانی چاہئے امریکہ پاکستان کو مختلف میدانوں میں اعلی ٹیکنالوجی منتقل کرنی چاہئے امریکہ کی مدد سے پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی غربت دور ہوگی اورپاکستانی مصنوعات پر عائد غیر ضروری پابندیاں ہٹا کر انہیں مارکیٹ تک رسائی دی جائے گی اور پاکستان کے عوام جب یہ محسوس کریں گے کہ امریکی دوستی کے نتیجے میں انہیں فائدہ ہورہا ہے تو ان کی نفرت بھی خود بخود کم ہونا شروع ہوجائے گی امریکی عوام کی طرح پاکستانی عوام بھی ایک پر امن دنیا میں رہنا چاہتے ہیں پاکستان کے شہری بھی ایک مستحکم معاشرے کے خواہاں ہیں وہ بھی اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے لئے پر امن اور دہشت گردی سے پاک ماحول قائم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں امریکہ کو ایک اچھا دوست اور سچا اتحادی بن کر دو طرفہ تعلقات کو قائم رکھنا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے