پاک سعودی عرب دفاعی معاہدے نے مسلم دنیا کے بدخواہوں کے کو عملا حیرت میں مبتلا کردیا، کہنے کو تو پاکستان اور سعودی عرب ساٹھ ک کی دہائی سے ایک دوسرے کے ساتھ دفاع، تجارت اور علاقائی وبین الاقوامی شعبوں میں باہمی تعاون میں پیش پیش ہیں مگر حالیہ پیش رفت نے دونوں ممالک کو گزرے وماہ سال سے کہیں بڑھ کر ایک دوسرے کے قریب لاکھڑا کیا ،مذکورہ معاہدے کے اس جملے نے پاک سعودی عرب تعلقات ہی نہیں مشرق وسطی کی سیاست کو ہی بدل کررکھ دیا کہ "ایک ملک پر حملہ دراصل دوسرے ملک پر حملہ تصور ہوگا ” دوآرا نہیں کہ پاک سعودی عرب معاہدے جس خاموشی اور تیزی سے عمل میں آیا اس کو بنیادی تحریک اسرائیل کے قطر کے درالحکومت دوہا میں ہونے والے حملہ سے ملی ، درحقیقت قطر پر امریکی حمایت اور پشت پناہی سے حملہ کرکے اسرائیل نے یہ پیغام دیا کہ اب اس کی جارحیت سے عرب دنیا کا وہ ملک بھی محفوظ نہیں جو اعلانیہ امریکہ کا اتحادی ہے ، درحقیقت غزہ میں ظلم وبربریت کرکے نتین یاہو پہلے ہی ثابت کرچکا اسے نہ تو اسے عالمی قوانین کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ مسلمہ سفارتی اصولوں کو تسلیم کرتا ہے ، یقینا پاکستان کی حد تک پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مسلہ فلسطین کے بات چیت کے زریعے پرامن حل کا خواہاں رہا ہے ، اس ضمن میں اسلام آباد کا موقف کم وبیش ورہی رہا جو نمایاں عرب ریاستوں کا تھا ، آسان الفاظ میں یوں کہ پاکستان مشرق وسطی میں ہمیشہ دپریا اور مستقل امن کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ رہا ، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والے حملے نے صورت حال بدل کر رکھ دی ، اس ضمن میں بہت سارے سوالات جواب طلب ہیں کہ یہ حملہ کیوں اور کیسے ہو، ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اسرائیلی ایجنسیاں حماس کے منصوبے سے باخبر ہونے کے باوجود بیخبر ہونے کا تاثر دیتی رہی تاکہ مذکورہ کاروائی کے بعد غزہ پر مکمل قبضہ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو یقینی بنایا جاسکے چنانچہ آج غزہ جس تباہی وبربادی کا منظر پیش کررہا ہے اس میں سات اکتوبر کے حملے میں تل ابیب کا گھناونے کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، دوسری جانب اسرائیل طے شدہ حکمت عملی کے تحت مشرق وسطی میں جنگ کو پھیلا رہا ہے ، لبنان، شام، ایران ، یمن ، فلسطین کے بعد قطر میں نیتن یاہو کی بربریت خطے کو آگ اور خون میں نہلانے کے اسرائیلی منصوبہ کو بے نقاب کرچکی، اب پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے دفاعی شبعے میں تعاون کو جہاں بروقت کہا گیا وہی اسے دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں بھی قرار دیا جارہا ہے ، مثلا نہیں بھولنا چاہے کہ حال ہی میں جب قطر پر اسرائیل نے حملہ کیا تو نیتن ہاہو نے اس جارحیت کا دفاع کرتے ہوئے دو بار پاکستان کا نام لیا ، اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جس طرح امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کی بعینہ ہی اسی طرح اسرائیل نے قطر میں حماس کے خلاف حملہ کیا ، نیتن یاہو نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر دوبارہ ضرورت محسوس کی تو پھر بھی کاروائی کی جاسکتی ہے ، اس پس منظر میں یہ نتیجہ نکالنا ہرگز غلط نہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان اور سعودی عرب دونوں پر اسرائیلی حملہ کو بعید ازقیاس قرار نہیں دیا جاسکتا، مثلا نئی دہلی اور تل ایبب کی پاکستان دشمنی سالوں سے دہائیوں پر محیط ہے ، رواں سال مئی میں بھارت نے پاکستان پر حملے کیلئے اسرائیلی ڈرونز کا استعمال بھی کیا ، ایسے خبریں بھی بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ تل ابیب اور نئی دہلی کے زیر غور ایسا منصوبہ بھی ہے کہ دونوں مل کر پاکستان کے نیوکلیراثاثہ جات پر حملہ کرکے انھیں تباہ کردیں ، اس پس منظر میں یہ کہنا کسی طور پرغلط نہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہونے والا غیر معمولی دفاع معاہدہ اسلام آباد اور ریاض دونوں کے بہترین مفاد میں ہے ، یعنی پاکستان کی جنگی صلاحیت اور سعودی عرب کے وسائل مل کر بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کا بہترین اندازہ میں مقابلہ کرسکتے ہیں، مذکورہ معاہدے کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ مشرق وسطی کی سیاست تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے ، ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سعودی عرب کی طرح چند اور عرب ممالک بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے بارے سوچ وبچار کررہے ہیں ، میڈیا میں مسلم نیٹو جیسی اصلاحات بھی استعمال کی جارہی ہیں ، یوں اس معاہدے نے سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کو واشگاف الفاظ میں پیغام دے گیا کہ وہ اب اپنی سیکورٹی کے معاملہ میں واشنگٹن پر بھروسہ کرنے پر آمادہ نہیں ، پاکستان اور سعودی عرب میں ہونے والے حالیہ معاہدے کے خلاف علاقائی اور عالمی سازشیں جاری ہیں ، مسلم دنیا کے بداخواہوں کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں اتفاق واتحاد کی کوئی بھی صورت پیدا نہ ہونے دی جائے ، یعنی گزرے ماہ وسال کی طرح ایک خدا، ایک رسولۖ اور ایک قرآن کو ماننے والوں پر تقسیم کرو اورحکومت کرو کا آزمودہ فارمولہ ہی کام میں لایا جاتا رہے مگر اس بار بدخواہوں کی چال کامیابی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔