پاکستان اور چین نے جمعرات کو مختلف شعبوں میں 8.5 بلین ڈالر کے دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کیے،وزیر اعظم شہباز شریف نے اس ترقی کو معاشی ترقی کا لانگ مارچ قرار دیا ہے۔بیجنگ میں منعقدہ دوسری پاک چین B2B سرمایہ کاری کانفرنس میں چینی اور پاکستانی کمپنیوں نے زراعت، الیکٹرک وہیکلز، سولر انرجی، صحت، کیمیکل اور پیٹرو کیمیکلز، آئرن اور اسٹیل سمیت دیگر شعبوں میں 7 بلین ڈالر کی مفاہمت کی یادداشتوں اور 1.54 بلین ڈالر کے مشترکہ منصوبوں پر دستخط کیے ہیں۔اس موقع پر اپنے کلیدی خطاب میں، وزیر اعظم نے کہا کہ لانگ مارچ سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بے پناہ مواقع میں اضافے کا باعث بنے گا۔وزیراعظم نے CPEC 2.0 کے باضابطہ آغاز کا اعلان کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی تعاون کے لیے ایک نئے وژن کی نقاب کشائی کی جو کہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرے گا۔اعلی سطحی مندوبین کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیراعظم نے فورم کو پاکستان اور چین کے درمیان آہنی بھائی چارے کا عکاس قرار دیا۔بیوروکریٹک تاخیر سے متعلق خدشات کو دور کرتے ہوئے،وزیر اعظم نے چینی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں سرخ فیتے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔انہوں نے ایک واضح اور سیدھا پیغام جاری کیا:ہم ایک سیکنڈ کی تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔میں نے حال ہی میں اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ایک چینی کاروباری کو 24 گھنٹوں کے اندر سہولت فراہم کی گئی ہے۔یہ عزم کی سطح ہے جس کی میں بات کر رہا ہوں۔انہوں نے چینی وفد کو سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کی یقین دہانی کرائی،یہ کہتے ہوئے کہ چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ شراکت داروں کے طور پر برتا کیا جائے گا اور یہ کہ جس طرح چین ہمارا ہے، پاکستان آپ کا دوسرا گھر ہے۔صدر شی جن پنگ کے پاکستان کے تاریخی دورے کے دوران 2015 میں طے پانے والے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے،وزیر اعظم شہباز شریف نے CPEC کے پہلے مرحلے کو پاکستان کی توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منظر نامے کو تبدیل کرنے کا سہرا دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں روزانہ 20 گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا تھا۔ آج صدر شی جن پنگ کی متحرک اور دور اندیش قیادت کی بدولت پاکستان توانائی میں خود کفیل ہو گیا ہے۔ یہ ایک اہم موڑ تھا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے CPEC 2.0 کے آغاز کا اعلان کیا، جو زراعت، IT اور AI، معدنیات اور صنعتی نقل مکانی میں کاروبار سے کاروبار (B2B) سرمایہ کاری کی طرف توجہ مرکوز کرے گا۔انہوں نے چینی سرمایہ کاروں پر زور دیا کہ ہمارا زرعی شعبہ ہماری 60 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔چین نے اس شعبے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے،اور ہم اپنے زرعی طریقوں کو جدید بنانے اور برآمدات بڑھانے کے لیے آپ کی شراکت کے خواہاں ہیں۔اپنے اختتامی کلمات میں،وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کے معاشی منظر نامے کو تبدیل کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ راستہ مشکل ہے،لیکن ناممکن نہیں۔ چین کی حمایت اور اپنے عزم سے،ہم پاکستان کو ایک مضبوط اور متحرک معیشت بنائیں گے۔آئیے آج اس سفر کا آغاز کریں۔اس موقع پر چینی اور پاکستانی سرمایہ کار، سرکاری افسران اور معززین بشمول نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، چین میں پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی اور چائنہ کونسل فار دی پروموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ کے چیئرمین، وفاقی وزرا اور دیگر موجود تھے۔پاکستان اور چین نے اپنے تعلقات کی مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جمعرات کو CPEC 2.0 پر اپنے پانچ نئے کوریڈورز کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم نے پاکستان کی علاقائی سالمیت، خودمختاری اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے غیر متزلزل حمایت پر چینی قیادت اور قوم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
جنگ ستمبر دفاعی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل
آج ملک بھرنبی آخرالزماںحضرت محمدمصطفیۖکا 1500واں یو م ولادت اور 60واںیوم دفاع ایک ساتھ منایا جا رہا ہے۔جشن ولادت مصطفیۖ کیلئے ملک پہلے ہی جگمگ کررہا ہے اور ہر طرف درودسلام کے گجرے پیش کئے جا رہے تو دوسری طرف آج جنگ ستمبر 1965میں دشمن کو ناکوں چنے چبوانے پر اپنی بہادر افواج کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔یوم دفاع 2025 اس بار اس لئے بھی اہم ہے کہ ہماری بہادر افواج نے چند ماہ قبل اسی ازلی دشمن کو ایک بار پھر دھول چٹوائی ہے،جو ہروقت تاک میں رہتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں بعض تاریخی دن ایسے آتے ہیں کہ جو لوگوں کے دلوں پر گہرے نقش چھوڑ جاتے ہیں اور قومیں ایسے تاریخی دنوں کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل طے کرکے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ زندہ قومیں ان تاریخی لمحات کو اپنے دلوں میں زندہ وتازہ کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ بھی ایسے تاریخی لمحات سے بھری پڑی ہے۔6ستمبر 1965ء جب پاکستانی قوم نے اپنی بہادر مسلح افواج کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کو پامال کرنے کی کوشش کرنے والے عددی برتری کے زعم میں مبتلا دشمن کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔ اسی طرح 28مئی 1998ء یوم تکبیر،جب پاکستان نے اپنے ابدی دشمن بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرکے اس کے مکروہ عزائم اور غرور و تکبر کو تہہ خاک کرکے رکھ دیا۔26 فروری 2019جب مکار دشمن جارحیت کا مرتکب ہوا تو اس کا لڑاکا طیارہ پاکستان کی حدود بھی داخل ہوتے ہی مار گرایا اور اسکے پائلٹ ابینندن کوگرفتار کر لیا ۔پھرحالیہ معرکہ حق ایسی کئی اور مثالیں ہیں جو سہنری حروف سے لکھی جائیں گی۔ہم سال بھر مختلف قسم کے دن مناتے رہتے ہیں لیکن یوم دفاع کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔اس دن کو پاکستانی قوم جوش وجذبے سے منا کر ان بہادر سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے جب وطن کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدوںکو مٹانے کیلئے دشمن جارحیت کا مرتکب ہوا اور افواج پاکستان کے جانباز سپاہی اپنی جان کی بازی لگا کر وطن کی عظمت وحرمت پر مرمٹنے کیلئے ہمہ تن تیار ہوگئے تھے، دشمن جب پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں پر اچانک حملہ آور ہوا تو پاکستانی عوام کو اپنے مدمقابل وطن کی پاسبانی کیلئے تیار پا کر ششدر رہ گیا۔گو پاکستان اس وقت عددی لحاظ سے کمزور تھا مگر جذبہ جہاداور شوق شہادت سے لیس ہر سپاہی اپنے نہتے پن کے باوجود بھی دشمن کے ناپاک قدم کو اپنی پاک دھرتی پر لگنے دینا اپنی توہین سمجھتا تھا ۔یہ وہ تاریخی دن ہے جب باطل جارحیت کی آڑ میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتا تھا مگر حق جارحیت کو اس کے قبرستان میں دفن کرنے کی سعی کررہا تھا ۔اس دن پاکستانی قوم کا ہر پیروجواں اپنے وطن کے دفاع کیلئے مرمٹنا اپنے لئے سعادت گردانتا تھا مگر اس دن جو تاریخ افواج پاکستان نے رقم کی دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔یوں تو ہر عسکری نے اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھائی مگر سلام ہو قوم کے ان سپوتوں پر جنہوں نے نہ صرف اپنے ہاتھ کی سعی کو بلکہ اپنی عقل کی کاوشوں کوبھی بروئے کار لا کر دفاع وطن کا فریضہ سر انجام دیا ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر نئی بحث
کے پی کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کے کالاباغ ڈیم کی حمایت کے بعد ڈیم منصوبے پر بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔اسکے حامیوں کے مطابق،میانوالی میں دریائے سندھ پر مجوزہ ڈیم 3,600 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا اور آبپاشی کو بہتر بنا کر، اور ممکنہ طور پر سیلاب کو کم کر کے زراعت کیلئے ایک اعزاز ثابت ہوگا۔تاہم،سندھ میں پانی کی فراہمی پر ڈیم کے اثرات، کے باعث مخالفت کرتا ہے،کے پی میں بھی مخالفت پائی جاتی ہے۔معاشی دلائل بھی اتنے ہی ممنوع ہیں۔ڈیم کیلئے زمین کے حصول کی لاگت اصل فزیبلٹی اسٹڈی کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ ہے۔اگرچہ یہ بحث نئی نہیں ہے لیکن حالیہ تباہ کن سیلابوں کے بعدکالاباغ ڈیم کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا جا رہا ہے۔ اب یہ یاد دلانے کا ایک اچھا موقع ہے کہ اسے منصوبے کومزید قابل عمل حل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔آبی پالیسی کی قومی توجہ کو عملی،کفایت شعاری کے متبادل پر منتقل ہونا چاہیے۔جو سیاسی طور پر بھی قا بل قبول ہو۔
اداریہ
کالم
پاک چین اقتصادی تعاون کے نئے وژن کی نقاب کشائی
- by web desk
- ستمبر 6, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 77 Views
- 5 دن ago