پاکستان اور چین کی دوستی کئی دہائیوں پر محیط ہے اور دونوں ممالک اسے آہنی دوستی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس تعلق کو معاشی اور عملی میدان میں وسعت دینے کیلئے 2015 میں پاک-چین اقتصادی راہداری ا آغاز کیا گیا۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے بلکہ خطے کی جغرافیائی اہمیت کو بھی نئی جہت دے رہا ہے۔ سی پیک دراصل چین کے عالمی وژن بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا سب سے اہم حصہ ہے، جس کے ذریعے چین کو خلیج اور مشرقِ وسطی تک مختصر ترین تجارتی راستہ میسر ہوگا۔سی پیک کی کل مالیت تقریبا 62 ارب ڈالر ہے جس میں توانائی، انفراسٹرکچر، بندرگاہوں اور صنعتی زونز کے منصوبے شامل ہیں۔ گوادر بندرگاہ اس منصوبے کا مرکز ہے جو مستقبل قریب میں ایک بڑے تجارتی اور ٹرانزٹ حب کے طور پر ابھر رہی ہے۔ پاکستان کیلئے سی پیک کی اہمیت توانائی کے بحران کے خاتمے، جدید شاہراہوں اور ریل کے نظام کی تعمیر، گوادر بندرگاہ کی ترقی اور عالمی تجارت تک رسائی، صنعتی ترقی اور روزگار کے لاکھوں مواقع کی فراہمی جیسے پہلوں سے نمایاں ہے۔حالیہ دنوں میں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے چین کا اہم دورہ کیا جہاں ان کی چینی قیادت سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان مذاکرات میں سی پیک کے دوسرے مرحلے پر خصوصی توجہ دی گئی اور توانائی، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور صنعتی زونز کے منصوبوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ سی پیک صرف ایک انفراسٹرکچر پراجیکٹ نہیں بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی شراکت داری اور ترقی کا ضامن ہے۔ اس دورے کے نتیجے میں کئی نئے معاہدوں پر دستخط ہوئے جن سے سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوگا۔اسی طرح وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی گزشتہ دنوں دورہ چین میں نہایت اہم ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے چینی وزیراعظم اور صدر سے ملاقات کے دوران پاکستان میں جاری منصوبوں پر پیش رفت پر بریفنگ دی اور سی پیک کے مستقبل کے لائحہ عمل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ وزیرِاعظم نے اس موقع پر اس بات پر زور دیا کہ پاکستان سی پیک کو قومی ترقی کے ایجنڈے کا حصہ سمجھتا ہے اور اسے ہر قیمت پر کامیاب بنایا جائے گا۔ ان مذاکرات میں چینی قیادت نے پاکستان کو یقین دلایا کہ وہ توانائی، صنعت اور ڈیجیٹل معیشت کے منصوبوں میں ہر ممکن تعاون جاری رکھے گی۔پاکستان کی معیشت کو سب سے بڑا چیلنج بجلی کی قلت رہا ہے۔ سی پیک کے تحت توانائی کے 21 بڑے منصوبے شروع کیے گئے جن کی مجموعی پیداوار تقریبا 17 ہزار میگاواٹ ہے۔ ان منصوبوں میں کوئلے، پانی، ہوا اور شمسی توانائی کے ذرائع شامل ہیں۔ نتیجتاً بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جس سے صنعتوں کو توانائی کی کمی کا سامنا کم ہو رہا ہے۔اسی طرح، سی پیک کے تحت پاکستان کے طول و عرض میں نئی سڑکوں اور موٹر ویز کی تعمیر جاری ہے۔ کراچی-لاہور موٹروے، حویلیاں-خنجراب شاہراہ اور قراقرم ہائی وے کی توسیع جیسے منصوبے شمالی اور جنوبی حصوں کو جوڑ رہے ہیں۔ اس ترقی سے نہ صرف اندرونی تجارت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک پاکستان کی رسائی بھی ممکن ہو رہی ہے۔گوادر بندرگاہ سی پیک کا دل ہے۔ یہ بندرگاہ عرب سمندر کے دہانے پر واقع ہے جہاں سے مشرقِ وسطی، افریقہ اور یورپ تک تیز ترین تجارتی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ تک گوادر کے ذریعے رسائی کا مطلب ہے کہ چین کی درآمدات و برآمدات کا وقت اور لاگت نمایاں طور پر کم ہو جائے گی۔ گوادر میں فری زون، جدید ایئرپورٹ اور کوسٹل ہائی وے جیسے منصوبے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔سی پیک نے پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش بنایا ہے۔ چین کے علاوہ مشرقِ وسطی، وسطی ایشیائی ممالک اور یورپ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر سے صنعتی شعبے میں انقلاب متوقع ہے۔ یہ زونز سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، بجلی اور پانی کی فراہمی اور آسان قوانین کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ اور تجارتی خسارہ کم ہونے کی امید ہے۔سی پیک کے تحت اب تک لاکھوں مقامی افراد کو روزگار ملا ہے۔ مختلف اندازوں کے مطابق، مکمل منصوبے کی تکمیل پر 20لاکھ سے زائد ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ یہ نہ صرف معیشت کی بہتری کا ذریعہ ہے بلکہ غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کیلئے بھی اہم سنگِ میل ہے۔یہ منصوبہ صرف پاکستان اور چین تک محدود نہیں بلکہ یہ افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کیلئے بھی مواقع فراہم کرے گا۔ اگر یہ ممالک پاکستان کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کریں تو پورے خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ پاکستان ایک پل کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے جو مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کو آپس میں جوڑتا ہے۔اگرچہ سی پیک ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے، تاہم اس کے راستے میں چند چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ان میں سلامتی کے خدشات، سیاسی اختلافات، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اور مقامی صنعتوں کا عالمی مقابلے کیلئے تیار نہ ہونا شامل ہے۔ ان مسائل کے حل کیلئے شفاف پالیسی، قومی اتفاقِ رائے اور بہتر حکمرانی کی اشد ضرورت ہے۔سی پیک کا دوسرا مرحلہ صنعتی ترقی، زراعت کی جدید کاری اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فروغ پر مرکوز ہے۔ اس مرحلے میں خصوصی اقتصادی زونز مکمل ہوں گے اور پاکستان کو عالمی سپلائی چین میں جگہ ملے گی۔ اگر پاکستان دانشمندی کے ساتھ اس موقع کو بروئے کار لائے تو اگلے دس برسوں میں معیشت کی شرحِ نمو سات فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔پاک-چین اقتصادی راہداری نہ صرف ایک منصوبہ ہے بلکہ یہ پاکستان کے معاشی مستقبل کی ضمانت ہے۔ اس کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے، روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں، سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہے اور پاکستان عالمی سطح پر ایک معاشی مرکز کی حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ قومی اتحاد، شفافیت اور پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل طور پر کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان کا شمار خطے کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہوگا اور یہ صرف گیم چینجر نہیں بلکہ فیٹ چینجر ثابت ہوگا۔