چین نے بھارت کو خصوصی کھادوں کی ترسیل بند کر دی ہے، جس سے زرعی بحران کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ اقدام چین کی جانب سے نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی کے بعد سامنے آیا ہے، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کا تسلسل ہے۔ چین نے گزشتہ دو ماہ سے بھارت کو خصوصی کھادوں کی فراہمی روک رکھی ہے، جبکہ دیگر ممالک کو یہ کھادیں بدستور فراہم کی جا رہی ہیں۔ بھارتی زرعی ماہرین کے مطابق، پھلوں اور سبزیوں کی فصلوں کے لیے استعمال ہونے والی 80 فیصد خصوصی کھادوں کا انحصار چین پر ہے۔یہ کھادیں نہ صرف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ مٹی کی صحت اور غذائی اجزاء کی افادیت کو بھی بڑھاتی ہیں۔ بھارت جون سے دسمبر کے درمیان تقریباً 1.6 لاکھ ٹن خصوصی کھادیں چین سے درآمد کرتا ہے۔ چین نے یہ پابندیاں براہِ راست اعلان کے بغیر لگائی ہیں، جو ممکنہ طور پر سرحدی کشیدگیوں اور بھارت کی جانب سے چین پر لگائی گئی تجارتی پابندیوں کے ردعمل میں کی گئی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاس ان کھادوں کی مقامی تیاری کے لیے درکار ٹیکنالوجی موجود نہیں، جس کے باعث زرعی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے "آتم نربھر بھارت” (خود انحصاری) کا دعویٰ اب ایک سیاسی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں لگتا۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے دوران کہا کہ بھارت اور چین کو چاہیے کہ وہ اپنی سرحدی کشیدگی کو حل کریں، افواج کو پیچھے ہٹائیں اور تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ‘تجارتی پابندیوں جیسے اقدامات’ سے گریز کریں۔بھارتی وزیر خارجہ کا 2020 کے بعد پہلا چین کا دورہ ہے، جب دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باعث تعلقات متاثر ہو گئے تھے، تاہم اکتوبر میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے بعد تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی تھی۔گزشتہ ماہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے چینی ہم منصب سے کہا تھا کہ دونوں ممالک کو سرحدی تنازع کا ‘مستقل حل’ تلاش کرنا چاہیے، جسے نئی دہلی کی جانب سے اس مسئلے کو حتمی انجام تک پہنچانے کی نئی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ سرحد سے متعلق دیگر پہلوؤں کو بھی حل کریں جس میں کشیدگی میں کمی بھی شامل ہے۔ باہمی فائدے کی شراکت داری کو فروغ دینے کیلئے پابندیوں پر مبنی تجارتی اقدامات اور رکاوٹوں سے بھی گریز کرنا انتہائی ضروری ہے۔وزیر خارجہ نے یہ بات ایسے وقت میں کہی ہے جب بیجنگ نے حالیہ مہینوں میں اہم معدنیات جیسے کہ ریئر ارتھ میگنیٹس اور ہائی ٹیک اشیا بنانے والی مشینری کی سپلائی پر پابندیاں لگائی ہیں۔بھارت دنیا کے پانچویں بڑے ریئر ارتھ ذخائر رکھتا ہے، لیکن اس کی مقامی پیداوار اب بھی کم ترقی یافتہ ہے ۔ پاکستان کیخلاف جارحیت کے بعد چین نے بھی بھارت کو بڑا جھٹکا دے دیا، چینی حکومت نے زنگنان کے مقامات پر کم از کم 27 سرحدی علاقوں کو چینی نام دیکر اسے اپنی خودمختاری قرار دیدیا۔چینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ زنگنان تاریخی، جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے چین کا حصہ ہے، ان مقامات کو چینی نام دینا ہماریاندرونی معاملات کا حصہ ہے، یہ اقدام چین کے خودمختار انتظامی دائرہ اختیار کے تحت کیا گیا، اقدام کا مقصد خطے میں تاریخی اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔بھارت زنگنان کو اروناچل پردیش کے نام سے اپنا حصہ قرار دیتا ہے، چین زنگنان کو جنوبی تبت کا علاقہ تصور کرتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان مسئلے پر پہلے ہی کشیدگی موجود تھی۔اس سے قبل 2024 میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے زنگنان سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین، بھارت سرحد کو کبھی محدود نہیں کیا گیا اور اسے مشرقی سیکٹر، مڈل سیکٹر، مغربی سیکٹر اور سکم سیکٹر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مشرقی سیکٹر میں زنگنان ہمیشہ سے چین کا علاقہ رہا ہے، چین نے بھارت کے غیر قانونی قبضے تک زنگنان پر مؤثر انتظامی اختیار استعمال کیا تھا، یہ ایک بنیادی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 1987 میں بھارت نے غیر قانونی قبضے کے تحت چین کی سرزمین پر نام نہاد ‘اروناچل پردیش’ تشکیل دیا تھا، چین نے اس وقت ایک بیان جاری کیا تھا جس میں اس کی سختی سے مخالفت کی گئی تھی اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ بھارت کا اقدام غیر قانونی اور کالعدم ہے، چین نے 2024 میں کہا تھا کہ چین کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ زنگنان میں جغرافیائی ناموں کے عوامی استعمال کیلئے چوتھا بیج مارچ 2024 میں جاری کیا گیا تھا۔بھارت نے کہا کہ وہ چین کے اروناچل پردیش میں مقامات کے نام تبدیل کرنے کے اقدام کو مسترد کرتا ہے، ان مقامات پر ایشیائی ہمسایوں کی سرحد ملی ہوئی ہے۔ یہ ہمالیہ کا علاقہ بھارت کا ایک لازمی حصہ ہے، بیجنگ نے ماضی میں بھی اروناچل پردیش میں مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں اور یہ مسئلہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔خاص طور پر جب دونوں ہمسایوں کے تعلقات میں 2020 میں سرحد پر ایک مہلک فوجی جھڑپ کے بعد تیزی سے خرابی آئی تھی۔