بیسویں صدی کے قریبا وسط سے شروع کرکے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی تک آتے آتے شرق اوسط کی کمر میں برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے کاشت کردہ اسرائیل نامی فساد نے اپنی غارت گری کو عروج تک پہنچا دیا ہے ۔ اس فساد نے تاریخ کی یادداشت سے مسیحی ریاستوں کے یہودیوں پر ڈھائے گئے مظالم کو محو کرنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے ذہنوں سے مسلمان ریاستوں کی طرف سے یورپ کی مسیحی ریاستوں کے دھتکارے ہوئے یہودیوں کو دی جانے والی پناہ ، تحفظ اور پرامن زندگی کے احسانات کو بھی مٹا کر رکھ دیا ہے ۔اسرائیلی ریاست اس وقت یہودیوں کی نہیں ، صیہونیوں کی نمائندہ ریاست ہے۔جس کی شناخت تعلیم، تحقیق، تجارت اور امن کی بجائے دہشت گردی ، انسانی نسل کشی، اور غارت گری بن چکی ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ہمہ وقت حالت جنگ میں رکھنا اسرائیل کے قیام کا بنیادی مقصد تھا۔ اس کا حل اور اس حکمت عملی کا توڑ یہ تھا کہ اسرائیل کو جنگ کے لیے کوئی میدان فراہم نہ کیا جائے۔ تاریخ میں مسلمان ریاستوں نے مسیحی ریاستوں کے ستائے اور ٹھکرائے ہوئے یہودیوں کو ہمیشہ پناہ دی تھی۔یہودیوں سے مخاصمت میسحی ریاستوں کی تھی مسلمانوں کی نہیں ۔امن ،تعلیم اور معیشت سے محبت کرنے والے جنگجو نہیں ہوتے۔یہی بات صدیوں کے دھکے کھا کر یہودیوں نے سیکھی تھی۔جسے برطانیہ اور امریکہ نے مل کر انتہا پسند صیہونیوں کے ذریعے کچل کر رکھ دیا۔آج بھی دنیا میں پرامن یہودیوں کی تعداد جنگی جنون میں مبتلا صیہونیوں سے بہت زیادہ ہے۔ستم یہ ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کا واویلا مچانے والا امریکہ اور اس کی ہر قوالی کے پیچھے تالیاں پیٹنے والا یورپ اسرائیل کے ہر جرم کو آنکھیں بند کر کے مسکرا کر دیکھتے رہتے ہیں۔لیکن میرے خیال میں آج کل اسرائیل کے سب سے بڑے حمائتی اور محافظ اس کے امریکی و یورپی اتحادی نہیں ،بلکہ عرب ممالک سمیت جملہ مسلمان ممالک کی حکومتیں ہیں۔ لیکن کیا کریں؟ آج لبنان میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرز پر اسرائیل کے میزائل حملوں میں حسن نصراللہ کی شہادت نے افسردہ کر دیا ہے ، گویا کربلائے بیروت کی شہادت گاہ آج بھی خون شہیداں سے مہک رہی ہے ۔ ہر کمزور اور بے عمل انسان کی طرح کئی سوالات نے ذہن پر یلغار کر رکھی ہے ، یعنی جب لبنان میں حزب اللہ کے متعلقین پر پیجر ڈیوائس والے حملے ہوئے تو عام آدمی کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرز پر یلغار کرے گا۔ پھر ہوائی حملے اور میزائیل باری شروع ہوئی۔کیا حسن نصر اللہ اور ان کے ساتھیوں کو علم اور اندازہ نہیں تھا کہ وہ نشانے پر ہیں؟؟؟مجھے بھی حسن نصر اللہ کی شہادت پر افسوس ہے۔لیکن حالت جنگ میں دشمن کو معلوم ٹھکانے پر موجود رہنا جنگی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ذہن میں آتا ہے کہ ؛ ایران اور اس سے وابستہ تنظیموں کو امریکی اور اسرائیلی رسائی ، صلاحیت اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی لاتعلقی کو سامنے رکھ کر حکمت عملی مرتب کرنی چاہیئے تھی۔ جب حزب اللہ دیکھ رہی تھی کہ اسرائیل والے پیجر اور واکی ٹاکی بلاسٹ کر رہے تھے، جب اسرائیل چن چن کر عسکری کمانڈرز کو شہید کر رہا تھا، تو پھر حسن نصر اللہ شہید کو ماہرانہ احتیاط کرنی چاہیئے تھی۔ایسے تمام خیالات کو ایک افسردہ شخص کے خیالات سمجھا جا سکتا ہے۔کبھی کبھی یوں گمان گزرتا ہے کہ ایران کی اسرائیل دشمنی نے اسرائیل کے تحفظ کی بنیاد ہموار کر کے اسے امریکی و یورپی التفات کا مرکز بنا رکھا ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت کے موقع پر سوائے رنج اور افسوس کے اظہارِ کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔شہید کی ولولہ انگیز تقاریر نے لبنان کو مزاحمت کا عنوان بنا رکھا تھا۔حق تعالی ان کی قربانی قبول فرمائے ۔مجھے آج اپنے مرحوم دوست نشان حیدر کا خیال آ رہا تھا ، ہم دونوں ٹی وی پر حسن نصراللہ کے ولولہ انگیز خطاب سنا کرتے تھے ۔مجھے نشان حیدر کی وہ ساری توقعات یاد آرہی تھیں ،جن کے مطابق عنقریب اسرائیل کا خاتمہ ہو جانا چاہیئے تھا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا۔حزب اللہ نے اپنے محدود وسائل اور ہمدرد ممالک کی ادھوری اعانت و التفات کے ساتھ اسرائیل پر کٹوشا میزائل برسا کر چٹکیاں کاٹنے اور مزاحمت کو تاریخ کے صفحات پر رقم کرنے کا فریضہ بخوبی ادا کیا ،یہ ساری جدوجہد اور قربانیاں نتائج کے حصول میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکیں۔کبھی گمان گزرتا ہے کہ اسرائیل نے ایرانی دشمنی کے تصور کو اپنی طاقت بنایا، اسماعیل ہانیہ کی تہران میں شہادت کے بعد سے لے کر اب تک ایران الٹے قدموں پیچھے کی طرف اور اسرائیل سیدھے قدموں آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد لبنان کا ایک بہت بڑا چراغ بجھ گیا ہے۔ تو راز یہ کھلا کہ ؛ اب اصل مقابلہ "ایمان ” اور "جذبے” کا نہیں ، "علم” یعنی ٹیکنالوجی کا ہے۔پیجر بلاسٹ کے بعد بھی اگر حزب اللہ اسرائیل کی نیت سمجھ نہیں سکی تو کیا کہہ سکتے ہیں۔حماس کے حملے سے لے کر آج تک اسرائیل کو ڈھنگ کا جواب نہیں مل سکا۔جبکہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں اس کی پشت پر ہیں۔مسلمان ممالک کی حکومتیں بھی اسرائیل ہی کی پشت پر ہیں ۔ایسے میں حکمت عملی مختلف اور مقابلے کی ہونی چاہیئے تھی۔ حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں تو یوں لگنے لگا تھا کہ ایران، حزب اللہ اور حماس اسرائیل کی سلامتی کے ضامن ہیں۔ حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے اور چند سو لوگوں کو یرغمال بنا لینے کے عمل نے اسرائیل کے لیے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کا راستہ ہموار کر دیا ۔پھر اسرائیل کے ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں نے ایران کے متعدد کمانڈروں کو شہید کرنا شروع کر دیا ،اس عمل کی انتہا تہران کی محفوظ رہائش گاہ میں اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا واقعہ تھا ۔ ابھی کل اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے صیہونی قصاب نیتن یاہو نے تکبر اور غرور کی آخری حد پر کھڑے ہو کر اعلان کیا ہے کہ ایران کا ہر کونہ ہماری رسائی میں ہے ۔ ایسی صورت میں سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیوں ایران کے روحانیان کی حکمت عملیاں جانے یا انجانے میں ہمیشہ اسرائیل کے فایدے میں جاتی ہیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ؛عراق ایران جنگ میں ایران کو اسلحے کی سپلائی اسرائیل ہی سے ہوا کرتی تھی۔ یقین ہو جاتا ہے کہ ریاستوں کے تعلقات کی ان گنت تہیں ہوتی ہیں۔ریاستوں کے ہزار چہرے اور سیکڑوں سچ ہوتے ہیں ،اسی طرح ہر ریاست کے اپنے اپنے جھوٹ بھی ہوتے ہیں۔چالباز اور مکار ریاست کا تجربہ ہم پاکستانیوں سے زیادہ اور کس کو ہوگا۔ یہ بات بہرحال ہم پاکستانیوں کو یاد رکھنی چاہیئے کہ ؛ "نظریاتی ریاست” کا تصور تاریخ کا حد درجہ سنجیدہ مذاق ہے۔دنیا کی ہر ریاست صرف اور صرف اپنے شہریوں کی فلاح کے مقصد قائم کی جاتی ہے۔ امن اسرائیل کے صیہونیوں کے لیے موت کے برابر ہے۔اسرائیل کو محلے کا غنڈہ بنانا امریکہ کی ڈیفس انڈسٹری کے لیے ضروری ہے۔ اس عمل میں امریکہ اور اسرائیل کی اعانت کرنے والا ہر ملک امن ، انسانیت اور سلامتی کا دشمن خیال کیا جانا چاہیئے ۔ کربلائے بیروت کی تازہ شہادت کا اصل سبق بھی شاید یہی ہے ۔