کالم

ہمیںبدلنا ہوگا

rohail akbar

مریم نواز کی لندن روانگی کی خبر دیکھ رہا تھا تو دوسری طرف سابق آئی جی پولیس طاہر انوار پاشا کی فیس بک پرانکی لگائی ہوئی ایک تصویر پر نظر پڑی تو دماغ گھوم گیاکہ دن بدن جہالت کی دلدل میںکیوں ڈوب رہے ہیں ہمارے پیسے لوٹنے والے ہی ہمارے ہیرو بنے ہوئے ہیں پہلے اس تصویر کا ذکر کرتا ہوں جو پاشا صاحب نے لگائی ہوئی ہے اس تصویر میں ایک شخص جیل کے کپڑے پہلے جیل کا بنا ہوا کھانا کھا رہا ہے یہ کوئی ایسا شخص نہیں کہ جسکی سفارش نہیں اور اس لیے وہ جیل کا کھانا کھا رہا ہے یہ اس ملک کا وزیر اعظم رہا ہے جو اس وقت اندر ونی اور بیرونی طور پر پوری دنیاہر چھایا ہوا ہے اس تصویر میں انکا سابق وزیر اعظم جیل کے اندر کھانا کھاتے دکھایا گیا ہے اس نے اربوں اور کھربوں کی کرپشن نہیں اور نہ ہی اس نے ایک دھیلے کی کرپشن کا کوئی دعوا کیا ہوا ہے ایھود اولمرٹ 7سال آرمی میں رہا پھر وزیر کے عہدے پر کام کرتا رہا القدس کا میونسپل صدر رہا نائب وزیر اعظم رہا اور پھر وزیر اعظم کے عہدے پر رہا 2009میں انکشاف ہوا کہ جب وہ میونسپل صدر تھا تو اس نے رشوت لی تھی اس الزام کا مقدمہ 2016تک عدالت میں چلتا رہا حتی کہ اسکا رشوت لینا ثابت ہوگیا عدالت نے اسے سزا سنا کر جیل بھیج دیا ہم میں اور ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ جرم ثابت ہونے پر کسی اسرائیلی یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا فوجی تھا یا ہمارا وزیراعظم رہا اور اس نے ملک کی بہت خدمت کی اور نہ ہی کسی نے یہ کہا کہ کوئی بات نہیں وہ کھاتا ہے تو کیا ہوا لگاتا بھی تو ہے اور نہ ہی وہاں کسی نے اسکی سزا کے اعلان کے بعد عدالت پر حملہ کیا اور نہ ہی وہاں کے سپریم کورٹ کے جج کو اپنی کرسی چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور نہ ہی وہاں پر کوئی سابق جج اسکی خاطر بریف کیس لیکرجہازوں پر جاجاکر ڈیلیں کرتا رہا بلکہ وہ قوم کے نزدیک صرف ایک رشوت خور اور لٹیرا تھا 1980 کی دہائی کے وسط میں اولمرٹ پر بدعنوانی کے الزامات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں متعدد پولیس تحقیقات ہوئیں 7 مارچ 2006 کو یہ انکشاف ہوا کہ 2004 میں اولمرٹ کی طرف سے خریدی گئی یروشلم کی 1999 کی جائیداد کی فروخت اور لیز بیک کے بارے میں ایک انکوائری کی جا رہی تھی جو مبینہ طور پر اولمرٹ کے لیے انتہائی سازگار مالیاتی شرائط پر کی گئی تھی اولمرٹ پر الزام تھا کہ اس نے مارکیٹ ویلیو سے کم $325,000 ادا کیے تھے۔ اس معاملے کے حوالے سے فوجداری تحقیقات کا باقاعدہ آغاز 24 ستمبر 2007 کو کیا گیا تھا 16 جنوری 2007 کو اولمرٹ کے خلاف مجرمانہ تحقیقات شروع کی گئیں۔ تحقیقات میں ان شکوک و شبہات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ وزیر خزانہ کے طور پر اپنے دور میں اولمرٹ نے بینک لیومی کی فروخت کے لیے ٹینڈر کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تاکہ سلوواک میں پیدا ہونے والے آسٹریلوی رئیل اسٹیٹ بیرن فرینک لووی کی مدد کی جائے جو کہ انکے ایک قریبی دوست تھے ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ اکتوبر 2007 میں جب وہ وزیر تجارت، وزیر مواصلات اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر فائز تھے تو غلط طریقے سے لیکوڈ پارٹی کے ساتھیوں کو سرکاری اداروں میں عہدوں پر تعینات کیا تھایہ تھی اس ملک کے وزیر اعظم کی کہانی اور دوسری طرف ہم ہیں کہ جھوٹ پر جھوٹ بول کر فخر کرتے ہیں فراڈ پر فراڈ کرکے جشن مناتے ہیں چوری اور ڈاکے مارکر دھمالیں ڈالتے ہیں اور خوش ہوتے ہیںکہ ہم نے کیسے ملک اور قوم کو چونا لگایا باہر تو کیا پاکستان میں بھی میری کوئی جائیداد نہیں کہنے والے اب اپنی اسی جائیداد میں علاج کے بہانے بھاگنے والے شخص سے ملاقات کرنے چلے گئے پچھلے دنوں مریم اورنگزیب کے ساتھ وہاں کے شہریوں نے جو کیا وہ اچھا نہیں تھا اس لیے شریف خاندان کو اب باہر نکلتے وقت احتیاط کرنی چاہیے پاکستان کے وہ باشعور لوگ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں انہیں اب بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا یہاں تو جہالت نے جو جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں انہیں اکھاڑنے میںابھی بہت وقت لگے گا ابھی تو ہم چوروں اور ڈاکوﺅں کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہیں یہ لوگ ہمارے اپنے ہیں جنہیں ابھی سمجھ نہیں کہ ہماری غربت پسماندگی اور جہالت کے یہی لوگ ذمہ دار ہیںجن کے ہم نعرے لگاتے نہیں تھکتے جو علاج کے بہانے بھاگتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے جنکی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں مگر جب نکلتی ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتی اور اب جیسے ہی انہیں پاسپورٹ واپس ملا انہوں نے بھی پاکستان میں رکنے کی کوئی تاخیر نہیں کی کیا ہمیں اس وقت عقل آئے گی جب پانی سر سے گذر چکا ہوگا اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کو عظیم ملک بنانے کے لیے ہمیں عظیم لٹیروں سے بھی جان چھڑوانا ہو گی ہمیں ایک پلیٹ بریانی پر بکنے کی بجائے اپنی آنے والی نسلوں کا تحفظ کرنا ہوگا عوامکو شعور کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ہم سب کو محنت کرنا ہوگی یہ صرف راجہ بشارت اور عمر سرفراز چیمہ کی ذمہ داری نہیں ہمیں سب کو آگے آنا ہوگا وقت کم اور مقابلہ سخت ہے راجہ بشارت انتہائی سمجھ دار درد دل رکھنے والے ایسے سیاست دان ہیں جو ملک وقوم کا درد رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں انکی آواز اسمبلی کے ایوان میں اور اسمبلی سے باہر صرف پاکستان کے لیے ہوتی ہے جب وہ وزیر قانون تھے تواپوزیشن بڑی مضبوط تھی اگر وہ اس عہدے پر نہ ہوتے تو بزدار سرکار کا چلنا مشکل ہوجاتا اب بھی وہ جب بولتے ہیں تو بغیر کسی لگی لپٹی کے بولتے ہیں اسی طرح عمر سرفراز چیمہ بھی عوام کا دکھ اور درد سمجھتے ہیں انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دکھوں ماری قوم کا درد کم کریں یہ دونوں عمران خان کے ہراول دستہ کے وہ سپاہی ہیں جو اپنی دکھوں کی پرواہ کیے بغیر اس مشن پر چل رہے ہیں جس سے پاکستان ایک نیا پاکستان بن سکے مجھے یاد آیا جب بلاول بھٹو نے رجیم چینج کے بعد اسمبلی میںتقریر کی تو پرانے پاکستان میںخوش آمدید کہا تھا جہاں لوٹ مار عام تھی ،قتل غارت عام تھی ،مک مکا اور ڈیل عام تھی ،شراب کو شہد میںتبدیل کرنا عام تھا ،قبضے عام تھے ہمیںنہیںچاہیے وہ والا پاکستان جہاں خون پانی سے سستا ہو جہاں مرنا جینے سے سستا ہو اور پھر مرنے کے بعد دفن ہونا مشکل ہو ہمیں وہ والا پاکستان چاہیے جہاں لٹیرے بھاگ نہ سکیں انصاف عام ہو خواہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو جرم کیا تو سزا دار ہو یہی فرق ہے ترقی یافتہ ممالک اور ہم جیسے پسماندہ ملک کے حکمرانوں میں وہ اگر کچھ غلط کریںتو جیل میںہوتے ہیں یہاں کچھ کریںتو حکمران بن جاتے ہیں اگر ہم نے بھی آگے نکلنا ہے تو پھر ہمیں بھی بدلنا پڑے گا حضرت عمر ؓکے انصاف کی طرح ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے