زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی یہ جملہ جس آسانی سے کہ دیا جاتا ہے اتنی آسانی سے وقت نہیں بدلتا ، ہر دور اپنی اپنی خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہوتا ہے ، جس وقت گزرجائے تو اس کی یادیں دل ، دماغ میں ایسی رچ بس جاتی ہے کہ بھلانے سے بھی نہیں بھولتیں ، کسی زمانے میں معاشرے میں شرفاءکی عزت پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی تھی ان کی مثال دیکر اپنی بات میں وزن پیدا کیا جاتا ہے لیکن پیسے کی ہوس نے عزت دار انسانوں کو دوکوڑی کا بناکر رکھ دیا ۔ اب زمانہ یہ ہے کہ بڑ بڑے عزت داروں کی سرعام پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں ۔ روزانہ اخبار اور ٹی وی کی خبروں میں کہی اور ان کہی پڑھنے سننے کو ملتی ہیں ، پیسے کی ہوس یعنی زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی تمنا اچھے بھلے کھاتے پیتے نامور انسانوں کو اپنے شکنجے میں ایسا جکڑ تی ہے کہ پھر توبہ ہی بھلی ۔ آج کل قیمتی تحائف بازار میں بکنے کے قصبے زبان زدعام ہیں ۔ اصل میں تحفے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ تحفہ دینے والے کا خلوص محبت اور لگاو¿ محور ہوتا ہے جس کی جتنی قدر کی جائے اتنا ہی کم ہوتا ہے لیکن تحفہ وصول کرنے والے کا ظرف بھی ہونا چاہیے جو محبت اور عزت بھرنے جذبات کی قدر کرنا اچھی طرح جانتا ہو ، ہر جذبے کو دولت کے ترازو میں تو لا نہیں جاتا ، ہر شخص اپنے مرتبے اور وسائل کی مطابقت میں اپنے احساسات کا اور جذبات کا اظہار کرتا ہے جتنی بڑی شخصیت ہو اتنا بڑا تحفہ وہ اپنے وقار کو مدنظر رکھ کر پیش کرتا ہے اور تحفہ وصول کرنے والے پر بھی یہ ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ اس تحفے کی نہ صرف قدر کرے بلکہ مناسب طور پر حفاظت بھی کرے ۔ عام زندگی میں تحائف کا لین دین بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا صاحب ثروت افراد کی زندگی میں ہوتا ہے اور پھر حکومتی سطح پر ملنے والے تحائف کے تحفظ کا الگ مقام ہے ۔ حکومتی سطح پر ملنے والے تحائف جو بالخصوص ایک حکومت کے سربراہان کو دوسرے ملک کے سربراہان پیش کرتے ہیں وہ واپس آخر حکومت کے قائم کردہ توشہ خانہ کے نام سے جو سیکشن قائم ہے وہاں جمع کروادیا جاتا ہے اور اگر تحفہ وصول کرنے والا اس تحفے کو جو بحیثیت ہیڈ آف اسٹیٹ تحفہ وصول کرچکا ہے رکھنا چاہے تو پھر اس کی ویلو لگواکر متعلقہ ادارے کی منظوری اور دوبارہ رعائتی قیمت کاتعین کرنے اور اس ویلو کو حکومتی خزانے میں جمع کروانے کے بعد اس تحفے کو ذاتی طور پر خریدا یا یوں کہیے حاصل کیا جاسکتا ہے ، جب بہت سے تحائف کیبنٹ ڈویژن میں جمع ہوجائیں اور انہیں نمایاں صاحب اقتدار یا حکومتی ذمہ داریاں نبھانے والے سرکاری عمال غیر ممالک کے دوروں پر ملنے والے یہ تحائف کو اپنے ذاتی تحویل میں نہ لینا چاہئیں تو پھر کچھ عرصے کے بعد کیبنٹ ڈویژن تمام سرکاری دفاتر میں ایک سرکلر کے ذریعے سرکاری ملازمین کو مطلع کرتی ہے کہ فلاح تاریخ کو اتنے بجے تحائف سیل کیلئے ڈسپلے کئے جائیں گے ۔لہٰذا دلچسپی رکھنے والے افسران توشہ خانہ وزٹ کریں اور اپنی پسند کی اشیاءجو قیمت اس شئے کی مقرر کی گئی ہو ادا کرکے خرید سکتے ہیں ، پھر وہ شئے جو اصل میں ایک تحفہ ہوتا ہے خریدنے والے کی تحویل میں چلا جاتا ہے پھر اس شئے کی دیکھ بھال اور رکھ رکھاو¿ خریدنے والے کی دلچسپی اور مزاج کی سطح پر ہوتی ہے اب تک تو تحائف جو سرکاری سطح پر ملے ہوتے ہیں بازاروں میں بکتے ہوئے نہیں دیکھے ، بہر حال زمانہ بدل چکا ہے پیسے کی اہمیت بڑھ چکی ہے اس لئے تحائق کی سرعام خرید و فروخت کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ پہلے زمانے میں خاندانی وقار کی اہمیت تھی اب بڑے بڑے جو ڈالر کی صورت اختیار کرلیں ان کی اہمیت ہے اس میں ان ہونی یا تعجب کی بات نہیں جس کے پاس زیادہ دولت ہو وہ قابل عزت ہے ۔ اب کردار اور خاندانی پس منظر کی اہمیت نہیں جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہوتی ہے وہ معاشرے میں اتنا ہی عزت دار اور با اثر شخصیت بن جاتا ہے ۔ غریب سید زادے جو باکردار بھی ہوں ان کی وقت ہی نہیں ۔ ظاہری طور پر انسان معاشرے میں با اثر ہونے اور باعزت مشہور ہونے کیلئے بے سود محنت کرتا ہے ۔ اپنی شہرت کیلئے کی جانے والی محنت انجام کا انسان کیلئے افسوس پیدا کرتی ہے ۔ زندگی نے دوبارہ اس دنیا کیلئے نہیں ملنا اور انسان کے پاس اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع نہیں ملنا ، لہٰذا فرض یہ بنتا ہے کہ انسان محنت اور اس کے انجام کے رشتوں سے باخبر ہو ۔ معاشرے میں ذلیل ہونے کی ۔ سے بچنا ضروری ہے ، یہ محنتیں بے سکون کرنے والی ہوتی ہیں ، اگر خوش قسمتی سے باطن معروف عبادت ہو جائے تو ظاہر معصومیت کا پیکر بن جاتا ہے لیکن ایک محاورہ ہے ، بند ر کیا جانے ادرک کا مزہ ، غور کرنے کا مقام ہے انسان مزید سے مزید کے حصول کیلئے دوڑتا رہتا ہے ، دولت کے انبار لگاکر بھی اس کی حرص طمع اور لالچ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے ، غور کرنے والی بات ہے کہ انسان ایک وقت میں کتنا کھالیتا ہے اسی طرح صبح شام کیا وہ بڑے بڑے نوٹوں کو نگل کرپیٹ بھرتا ہے ، صبح شام اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے جینے کیلئے پیٹ بھرا جاتا ہے اس کی ویلو کتنی ہوگی جس سے دو وقت پیٹ بھراجاتا ہے ، بس یہ اس کی اصل کمائی ہوتی ہے باقی صرف اپنے آپ کو غلط فہمیوں کی بارہ دری میں گم کرنے والی بات ہے ۔ گھر جتنا مرضی بڑا بنالیں رات کو ایک کمرے میں بیڈ کے ایک حصے میں سونا ہے ، صبح اٹھ کر پھر دنیا داری نہ بیڈ ہوتا ہے اور نہ ہی تعش خواب گاہ سواری کیلئے ایک گاڑی حسب توفیق جتنی ہمت ہوگی اس کی مطابقت میں خریدی جاتی ہے ، باقی سب کچھ بینک میں دوسروں کے قبضے میں دوسروں کیلئے آنکھیں بند ہوجائیں تو چار بندے اٹھاکر کھڈے میں ڈال آتے ہیں جہاں اللہ کی دوسری مخلوق اس لاش سے لطف اندوز ہوتی ہے ، کچھ عرصے کے بعد بندے کا نام ، نشان بھی مٹ جاتا ہے ۔ دنیا کا مال جو جائز ناجائز ذرائع سے جمع کیا ہوتا ہے دنیا میں ہی رہ جاتا ہے اس سے دوسرے فیض یاب ہوتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد اس کا نام ، نشان ہی مٹ جاتا ہے ، پھر کسی کیلئے انسان جائز اور ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگانے کی کوشش میں رہتا ہے ، زندگی خواب کی طرح گزرجاتی ہے تو پھر اس ناپائیدار اور فانی دنیا سے کیا تعلق جوڑنا اپنے اعمال سے آخرت اچھی یا بری بنانا ہے ، اس پاک ذات کی عطا تو ہماری خطا سے بہت زیادہ ہے جس کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا ، شہرت دولت عزت دینے والی ذات ہم اس کی مہربانیوں کا اپنی کمزور سوچ اور عمل سے احاطہ نہیں کرسکتے ، صرف ندامت کے آنسو تسبیح بیان کرسکتے ہیں ، پھر توبہ کی اگر مرنے سے پہلے توفیق مل جائے تو وہی خوش قسمت انسان ہوسکتا ہے ، ہر چیز کو عزت کے ساتھ رہنے دیا جائے تو اپنی عزت بھی قائم رہتی ہے ، ہم تضادات کا مرکب بن چکے ہیں ، ہمارے ظاہر اور باطن میں زمین اور آسمان جیسا فرق ہے ، ہم جن بزرگ ہستیوں کا نام بڑے ادب سے لیتے ہیں ان کی زندگیوں کے واضح اصولوں کو کیوں نہیں اپناتے ، ہم تضادات کا شاہکار بن کر جینا چاہتے ہیں ، ہم کیا چاہتے ہیں ، سوچنے کا مقام ہے ، جائز اور ناجائز ذریعوں سے صرف دولت ہی نہیں کمانا بلکہ آخرت بھی کمانی ہے ، ہم خدا کے خوف کی بجائے غریبی کے خوف سے ڈرتے ہیں ۔
کالم
ہوس کے پجاری
- by Daily Pakistan
- نومبر 23, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 967 Views
- 3 سال ago

