یہودی دو ہزار سال سے دنیا میں چھوٹا پروپیگنڈہ کر تے رہے ہیں کہ فلسطین ان کا آبائی وطن ہے۔ یہ بات ہم سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ فلسطین یہودیوں کا آبائی وطن نہیں ہے۔ تیرہ سو برس قبل مسیح میں بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت فلسطین کے اصل باشندے دوسرے لوگ تھے جن کا ذکر خود بائیبل میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے اصل باشندوں کو قتل کےا اوراس سر زمین پر قبضہ کیا تھا۔ اسرائیلیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کو میراث میں دیا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے فرنگیوں نے سرخ ہندیوں (red indians )کو فنا کر کے امریکہ پر قبضہ کیا تھا۔ دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سیلمانؑ نے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا تھا۔آٹھویں صدی قبل مسیح اسیریا نے شمالی فلسطین پرقبضہ کر کے اسرائیلیوں کاقلع قمع کیا تھا اورعربی النسل قوموں کو آباد کیا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کر کے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا تھا۔طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد ایرانیوں کے دور میں یہودیوں کو پھر جنوبی فلسطین میں آباد کا موقع ملا۔ ۰۷ءمیں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی، جس کی پاداش میں رومیوں نے ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ ۵۳۱ءمیں رومیوں (عیسایوں) نے پورے فلسطین سے یہودیوں کونکال دیا۔ پھر فلسطین میںعربی النسل لوگ آباد ہو گئے۔ جیسے وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے ۔ اسلام کے آنے سے پہلے فلسطین میںیہی عربی قبائل آباد تھے۔ فلسطین میںیہودیوں کی آبادی قریب قریب بالکل نا پید تھی۔ اس سے تاریخی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ایک تو یہودی ابتدا میں نسل کُشی کر کے فلسطین میں زبردستی آباد ہوئے تھے۔ دوم شمالی فلسطین میں صرف چار سو برس اور جنوبی فلسطین میں صرف آٹھ سو برس رہے۔ جبکہ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال اور جنوبی فلسطین میں دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین ان کے باپ داد کی میراث ہے۔ جبکہ یہ تاریخی فراڈ ہے۔ یہودی کہتے ہیں ان کو حق ہے کہ فلسطین کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ پر بس جائیں جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں، انہوں نے کیا تھا۔ یعنی قدیم باشندوں کو فلسطین سے زبردستی نکال دیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کے اصل باشندے عرب ہیں نہ کہ یہودی۔ اللہ نے اسرائیلیوں پر بڑی مہربانیاں کی تھیں۔ قرآن ان مہربانیوں سے بھرا پڑا ہے۔اللہ نے بنی اسرائیل سے پہاڑ اُوپر اٹھا کر سخت عہد لہا تھا کہ وہ اللہ کے بندے بن کر رہیں گے ظلم زیادتی نہیں کریں نا حق لوگوں کو قتل نہیں کریں گے۔ فرعون سے ان کو نجات دلائی۔ ان کےلئے من و سلویٰ آسمان سے اُترا۔ بادلوں سے ان پر سایہ کیا۔ ان کو دنیا کی قوموں پر فضلیت دی، مگر بنی اسرائیل نے اللہ سے پختہ عہد توڑ ڈالا۔ اللہ نے ان کو سزا دینے کے بعد پھر معاف کر دیا اور کہا کہ بنی اسرائیل تم دنیا میںدو مرتبہ فساد بر پا کرو گے۔ بنی اسرائیل نے اس دنیا میںدو مرتبہ فساد بر پا کیا۔ اللہ نے بھی دو مرتبہ ان کو اسیریا اور بخت نصر سے سزا دلوائی اور کئی سالوں سے وہ دنیا میں تتربتر تھے ۔ بنی اسرائیل اللہ کی نافرمان ترین قوم ہے۔ قرآن شریف بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کی وجہ چاج شیٹ سے بھی بھرا پڑا ہے۔ یہودی دنیا میں تمام خرابیوں کے موجد ہےں۔ خدا خوفی، اللہ سے کھلی بغاوت پر کیمونزم نظام کاقیام، سودی نظام، فحاشی ،بے حیائی،وعدہ خلافی، احسان فراموشی یہ ان کے کرتوت ہیں۔بلفور معاہدے کے تحت عیسائیوں نے ان کو فلسطین میں آباد کیا۔پوری دنیا سے یہودی فلسطین آکر فلسطین کے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ اپنے ناجائز بستیاں بنائیں۔ اقوام مرحدہ کی کسی قرارداد پر عمل نہیں کرتے۔دراصل اسرائیلی قوم پرست ریاست امریکہ کی ناجائز اولاد ہے۔امریکہ کی مدد سے ارد گرد کے اسلامی ملکوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ پر لکھا ہے اسرائیل تیریں سرحدیںدریائے نیل سے دریائے دجلہ تک ہیں۔ اس میں اردس کرد کے سالرے مسلمان ملکوں کے حصے شامل ہیں ۔ 1948ءسے لے کر آج تک فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ غزہ کے 23 لاکھ آبادی کو قید کیا ہوا ہے۔تنگ آکر حماس کے مجاہدین نے اس دفعہ بحری، بری اور فضائی راستوں سے اسرائیل پر حملہ کر کے اس کے سیکڑوں فوجیوں کو ہلاک اور قیدی بنا لیا ہے ۔ اس کی طاقت کا گھمنڈ توڑ دیا ہے۔اس کے جواب میں حماس کے فوجی ٹکانوں پر جوابی حملہ کرنے کے بجائے نہتے قیدی شہریوں، جن میں بوڑھے، عورتیں اور بچے شامل ہیں کارپٹ بمباری کر 6000 کو شہید کر دیا۔
(……..جاری ہے)
کالم
یہود کی حقیقت اور فلسطینیوں پر مظالم
- by web desk
- اکتوبر 31, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 516 Views
- 2 سال ago