اداریہ کالم

آرمی چیف کا تقریب سے خطاب

چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے منگل کو اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی میں کسی کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔پہلے اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سی او اے ایس جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ جو بھی پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، ہم مل کر اس رکاوٹ کو دور کریں گے، جب تک اس ملک کے باہمت عوام پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، کوئی بھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاک فوج عوام کے تعاون سے کسی بھی چیلنج پر قابو پا سکتی ہے ۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ مٹھی بھر دہشت گرد قوم کی تقدیر کا حکم نہیں دے سکتے۔ کیا پاکستان کے دشمنوں کو واقعی یقین ہے کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ سی او اے ایس جنرل عاصم منیر نے سوال کیا۔انہوں نے خبردار کیا کہ دہشت گردوں کی دس نسلیں بھی بلوچستان یا پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان پاکستان کی تقدیر کا زیور اور ہماری قوم کا فخر ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، سوال یہ نہیں کہ پاکستان کب ترقی کرے گا، بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنی تیزی سے ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے جس کےلئے ہمیں ہر وقت شکر گزار رہنا چاہیے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برین ڈرین کی بات کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف (سی او اے ایس) جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہم نامساعد حالات سے نہیں ڈرتے بطور مسلمان اور بطور پاکستانی، ہم نے کبھی مشکلات کے سامنے سر نہیں جھکایا اور نہ ہی کبھی ایسا کریں گے، پاکستانی قوم اپنے شہدا کے لیے بے پناہ عزت اور احترام رکھتی ہے،ان کی قربانیاں لازوال ہیں،اور ہم ان کی میراث کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیں گے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ انہوں نے قوم کی برادری میں پاکستان کی نمائندگی کی اور ان کے جذبات ملک کے لیے قابل تعریف ہیں۔جنرل عاصم منیر نے کہا کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبات سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے لیے ہمارے جذبات اور بھی مضبوط ہیں۔انہوں نے کہاآپ نہ صرف پاکستان کے سفیر ہیں بلکہ آپ پاکستان کا وہ نور ہیں جو پوری دنیا میں چمکتا ہے۔آپ سب کو پاکستان کی کہانی اپنی اگلی نسل کو سنانی ہے، وہ کہانی جس کی بنیاد پر ہمارے آبا اجداد نے پاکستان حاصل کیا تھا۔آپ کو ہمیشہ اپنا سر اونچا رکھنا چاہیے کیونکہ آپ کا تعلق کسی عام ملک سے نہیں ہے بلکہ آپ ایک عظیم اور طاقتور ملک کے نمائندے ہیں۔جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستانی قوم شہدا کے لیے بے پناہ عزت و تکریم رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی قربانیاں لازوال ہیں، اور ہم ان کی میراث کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو اس جگہ پر لے جانا چاہتے ہیں جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانیوں کے دل ہمیشہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے دھڑکتے ہیں۔ہم دعا کرتے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے تمام خواب پورے ہوں۔
ایک مثبت آغاز
ایران پر بمباری کی امریکی دھمکیوں سے،معاملات نے مزید مثبت رخ اختیار کیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سفیر اسٹیو وٹ کوف نے ہفتے کے روز مسقط میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ساتھ جوہری معاملے پر بالواسطہ بات چیت کا آغاز کیا۔ جب کہ عمانیوں نے ثالث کے طور پر کام کیا، مسٹر وٹ کوف اور مسٹر اراغچی نے بھی مختصر ملاقات کی، طویل وقفے کے بعد سفارتی پہلا رابطہ شروع کیا۔دونوں فریقوں نے احتیاط کے ساتھ پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے، اور اگلا دور اس آنے والے ہفتے کے آخر میں ہوگا۔اگرچہ مسٹر ٹرمپ نے مذاکرات کے ناکام ہونے کی صورت میں ایران پر حملہ کرنے کو مسترد نہیں کیا ہے، لیکن مذاکرات واشنگٹن سے آنے والے پہلے بم دھماکے سے خوش آئند تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔اگرچہ یہ پیش رفت بلاشبہ مثبت ہے، لیکن کسی کو بھی اس وہم میں نہیں رہنا چاہیے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم ہو گئی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ مسٹر ٹرمپ کی غیر متوقع نوعیت ہے، حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ایرانیوں کے امریکہ کے اس مطالبے کو پورا کرنے کا امکان نہیں ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر واپس لے لیں۔ تہران کی اپنے علاقائی اتحادیوں کے لیے حمایت، اور اس کے میزائل پروگرام کی حدود دیگر اہم امریکی مطالبات بھی سرخ لکیریں ہیں۔اس سے آگے،ایرانی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔امریکی زیرقیادت پابندیوں نے اسلامی جمہوریہ کی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے اور اندرونی بدانتظامی کے ساتھ ساتھ اوسط ایرانی کافی مالی تکلیف برداشت کر رہا ہے۔اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ تل ابیب میں مسقط میں مصروفیت اچھی نہ گزری ہو۔اسرائیلی حکومت ایران پر حملہ دیکھنا چاہتی ہے، لیکن وہ جانتی ہے کہ وہ اسے تنہا نہیں کر سکتی اور اس طرح وہ واشنگٹن کو مشرق وسطی کی نئی دلدل میں گھسیٹنے کے لیے پر امید ہے۔ لہذا، مسٹر ٹرمپ کو مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ایران پر حملہ کرنے کے لیے صیہونی اور نیوکون کے مشورے کے خلاف مزاحمت کرنے اور نیک نیتی سے مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ایران پر حملہ بچوں کا کھیل نہیں ہو گا اور اس طرح کی مہم جوئی سے اٹھنے والی آگ پورے مشرق وسطی کو جلا کر رکھ دے گی۔
نئی نہروں پر تنازعہ
دریائے سندھ پر نئی نہروں پر سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان جاری تنازعہ افسوسناک بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔دونوں اطراف کے میڈیا زاروں کی ہر پریس کانفرنس میں نہر کا مسئلہ چھا جاتا ہے کیونکہ یہ معاملہ سیاسی شور مچانے والے میچ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان سنگین معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے،ایسے خلفشار صرف قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اس مسئلے نے حکومت، اپوزیشن اور سول سوسائٹی کو تمام صحیح وجوہات کی بنا پر متحد کر دیا ہے۔ سندھ نے خدشات کا اظہار کیا ہے کیونکہ صوبہ پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ چولستان اور گریٹر تھل کینال فیز ٹو جیسی نئی نہروں سے سندھ کا حصہ مزید کم ہو جائے گا ۔ پی پی نے یہاں تک خبردار کیا ہے کہ اگر یہ مسئلہ جاری رہا تو وہ اسلام آباد میں حکمران اتحاد سے نکل سکتی ہے ۔ پنجاب کو سندھ کی تشویش دور کرنی چاہیے تھی لیکن پنجاب نے ان خدشات کا جواب دینے کے بجائے سندھ پر پانی کے بہا کے اعداد و شمار کو غلط رپورٹ کرنے اور اپنا حصہ چوری کرنے کاالزام لگایا ہے۔یہ عوامی الزامات کسی کے کام نہیں آتے۔وہ صرف آگ میں ایندھن ڈالتے ہیں۔ دونوں اطراف کو نہروں کی بجائے پانی کے بہتر انتظام کی ضرورت ہے۔ پرانے لیک ہونےوالے نہری نظاموں میں 40فیصد سے زیادہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔دونوں صوبوں کے کسان ناقص منصوبہ بندی اور فرسودہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ان سسٹمز کو ٹھیک کرنے سے کسی بھی نئی نہر سے کہیں زیادہ پانی کی بچت ہوگی۔اس کا حل شفافیت، تعاون اور منصوبہ بندی میں ہے۔مشترکہ مفادات کونسل اس معاملے کو فوری طور پر اٹھائے۔یہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں تمام صوبوں کی بات اور سنی جا سکتی ہے۔اتفاق رائے کے بغیر نہریں بنانے سے تقسیم مزید گہرے ہو گی۔ پانی کے ساتھ سیاست نہ کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے