جنگل اور درخت محض لکڑی یا ایندھن کا ذریعہ نہیں، بلکہ آئندہ نسلوں کی بقا، موسمی توازن، زمین کی زرخیزی، اور پانی کی دستیابی کا سب ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے اپنے جنگلات کو سنجیدگی سے محفوظ کیا ہے، وہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد حاصل کر رہے ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی مستحکم ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک شاندار مثال آسٹریلیا کی ہے، جہاں جنگلاتی نظم، لکڑی کے تخلیقی استعمال، اور قانون سازی نے پائیدار نظام قائم کر رکھ ہے اسٹریلیا کی تقریبا 17 فیصد زمین جنگلات سے ڈھکی ہوئی ہے، جو تقریبا ً33.6ملین ہیکٹرپر مشتمل ہے۔ عالمی سطح پر آسٹریلیا ان سات ممالک میں شامل ہے جن کے پاس سب سے زیادہ جنگلاتی رقبہ موجود ہے۔ ریاست کوئینزلینڈ میں آسٹریلیا کے سب سے زیادہ جنگلات ہیں، جو ملک کے مجموعی جنگلات کا تقریبا ً39 فیصد ہیں، جبکہ تسمانیہ میں جنگلات کا رقبہ تقریباً 3.7ملین ہیکٹر ہے، جو کل قومی جنگلات کا تقریبا 3 فیصد بنتا ہے۔یہاں کے جنگلات میں Eucalypt، Acacia، Melaleucaاور Rainforest اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں، جنہیں عالمی سطح پر قیمتی اور نایاب سمجھا جاتا ہے۔ آسٹریلوی حکومت کی موثر پالیسیوں کے تحت 2008 کے بعد سے جنگلاتی رقبے میں مستقل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور 2016 تا 2021کے درمیان تقریبا 0.75ملین ہیکٹر نیا جنگل اگایا گیا۔آسٹریلیا میں لکڑی روزمرہ زندگی کا ایک بنیادی جزو ہے۔ گھروں کی فینسنگ، ڈھانچہ ساخت، فرنیچر، چھوٹے پل، اور یہاں تک کہ بجلی کے پولز بھی عموما لکڑی کے بنائے جاتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی کے بجلی پولز لوہے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ملچ کے طور پر لکڑی کی چپس کا استعمال بھی عام ہے، جنہیں سرخ یا کالے رنگ میں پارکوں اور کیاریوں کی زینت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ آسٹریلیا کے دیہی علاقوں میں آج بھی آتشدان کے لیے لکڑی استعمال ہوتی ہے، جو سرد موسم میں توانائی کا قدرتی ذریعہ ہے ۔ تاریخی حوالوں میں وکٹوریا کے نووجی ٹریسل ریلوے پل کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں، جو مکمل طور پر لکڑی سے بنایا گیا اور کئی دہائیوں تک استعمال ہوتا رہا۔اسی طرح سمندر میں جیٹی اور پرانی بندرگاہی تنصیبات آج بھی لکڑی کی مضبوطی اور پائیداری کی گواہی دیتی ہیں، جن کی عمر بعض اوقات سو سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔آسٹریلیا میں Illegal Logging Prohibition Act 2012 اور 2024 کے قواعد کے تحت درخت کاٹنے یا غیر قانونی لکڑی درآمد کرنے پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ قانون کے تحت ہر درآمد کنندہ پر لازم ہے کہ وہ لکڑی کے ذرائع کی مکمل چھان بین کرے خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے، وارننگ لیٹرز، سول اور کریمنل سزائیں تک دی جا سکتی ہیں۔ اس نظم و ضبط کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں نہ صرف جنگلات محفوظ ہیں بلکہ ملکی سطح پر زرِمبادلہ کی بچت بھی ہو رہی ہے کیونکہ بہت سے تعمیراتی مقاصد میں لکڑی کی اپنی پیداوار استعمال ہوتی ہے۔ آسٹریلیا کے مقابلے میں پاکستان کی تصویر افسوسناک ہے۔ یہاں لکڑی مافیا دندناتے پھرتے ہیں۔ قوانین تو موجود ہیں لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ شجرکاری کا شعور، عوامی شرکت، اور قانون کا نفاذ سب کچھ کمزور ہے۔ جنگلات میں کمی اور درختوں کی بے دریغ کٹائی نہ صرف ماحولیاتی تباہی کا پیش خیمہ بن رہی ہے، بلکہ پاکستان کو ایک قیمتی معاشی موقع سے بھی محروم کررہی ہے۔پاکستان میں جنگلات کی حفاظت اور پائیدار شجرکاری کو قومی ایجنڈا بنایا جائے، تو نہ صرف ماحولیاتی تحفظ ممکن ہوگا بلکہ اعلی معیار کی لکڑی تیار کر کے ہم برآمدات کے ذریعے زرِمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔لکڑی صرف ایک وسیلہ نہیں، ہمارا مستقبل ہے۔ آسٹریلیا کا ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ لکڑی کا استعمال ایک آرٹ، سائنس اور معیشت ہے۔ یہ صرف درخت کاٹنے کا معاملہ نہیں، بلکہ قدرتی وسائل کو موثر اور پائیدار طریقے سے استعمال کرنے کا نام ہے۔ پاکستان میں بھی اگر قانونی اقدامات، عوامی شعور اور حکومتی سنجیدگی سے کام لیا جائے تو ہم بھی ایک سبز، مستحکم اور خوشحال پاکستان کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔