کالم

آفات اور وطن عزیز پاکستان۔۔۔!

گزشتہ چند سالوں میںمتعدد آفات خشک سالی ، طوفان ،زلزلے اور سیلاب وغیرہ کا سامنا کرنا پڑا ،جس سے لاکھوں افرادجان بحق ہوئے، معاشی لحاظ سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔تاریخ عالم سے عیاں ہوتا ہے کہ صرف ہمارے ملک میں قدرتی آفات اور حادثات رونما نہیں ہوتے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی آفات اور حادثات رونما ہوئے ہیں۔ آفات سے نمٹنے کےلئے ہر قوم اپنے وسائل اور منصوبہ بندی کے مطابق ان کی روک تھام اور نقصانات کو کم کرنے کی سعی کرتی ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی یقینا ایسا ہی ہورہا ہے لیکن اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔ (الف) ہمارے ملک میںموسم برسات میں سیلاب آتے ہیں جس سے لاکھوں ایکٹر زمین تباہ ہوجاتی ہے، جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ موسم سرما میں فصلوں کے لئے پانی نہیں ہوتا ہے۔اس مسئلے کا بہترین حل ڈیمز کی تعمےرہے۔ڈیموں سے موسم برسات میں پانی ذخیرہ ہوگا،یہی پانی ربیع کی فصلوں کے لئے دستیاب ہوگا،اس سے ہمارے ہاں فصلیں پیدا ہونگی ،ہم خوراک کے لحاظ سے خودکفیل ہونگے۔ ہمیں باہر سے اجناس کو برآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ،اس سے زرمبادلہ بچا سکیں گے، ہمارے ملک کی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوگا،اسی طرح ڈیموں سے سستی بجلی پیدا ہوگی،سستی بجلی سے صنعتوں کا پہیہ تیز ہوگا،ملک میں روزگار کے نئے نئے باب کھل جائیں گے، لوگوں کی زیست میںخوشگوار تبدیلی آئے گی،ملک ترقی کرے گا اور لوگ خوشحال ہونگے۔کالاباغ ڈیم سمیت سب ڈیمز بنائیں۔کالاباغ ڈیم کے ڈیزائن میں مزید ترمیم کریں ، ویسے کالاباغ ڈیم ایک قدرتی ڈیم ہے، اسی طرح متعدد مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے جاسکتے ہیں، ڈیمز میں موسم برسات میں صرف اضافی پانی ذخیرہ کریں،ڈیمز سے زیرزمین پانی کا لیول بلند ہوگا۔اسلام آباد ، راولپنڈی وغیرہ میں پانی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح لاہور پاکستان کا دل ہے لیکن لاہور میں زیرزمین پانی کا لیول نیچے جارہا ہے اور منصوبہ بندی نہ ہونے سے پانی آلودہ بھی ہورہا ہے۔اسی طرح ملک کے دیگر شہروں کے مسائل ہیں۔یہ سارے مسائل اخلاص ، دیانت اورمحنت سے حل ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہم منصوبوں کو سیاست کے بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سیاست کےلئے بھی قواعد وضوابط مقرر کرنے چاہیئں۔ معیشت اور قومی منصوبوں پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ثبوت کے بغیر کسی پر الزام نہیں لگانا چاہیے۔حکومت تبدیلی کی صورت میں قومی منصوبے کو جاری رکھنا چاہیے،تاکہ ان کے ثمرات سے عوام مستفید ہوسکے۔عمران خان کا راوی ریور فرنٹ منصوبہ، کلین اینڈ گرین پروگرام ، ملین ٹریز پراجیکٹ بہترین ہیں ۔ ریسکیو 1122 چودھری پرویزالٰہی کا قابل تعریف منصوبہ ہے ۔اسی طرح موٹرویز نواز شریف کا بہترین منصوبہ ہے۔ شہبازشریف کا میٹرو بس سروس اورفیڈربس سروس منصوبہ قابل ستائش ہے جس سے روزانہ لاکھوں افراد مستفید ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ درج بالا تمام منصوبوں کو جاری رکھنا چاہیے۔سرگودھا میانوالی موٹروے اور میانوالی ملتان موٹروے کی تعمیر ناگزیر ہیں۔تمام موٹرویز کےساتھ ساتھ پھل دار درخت لگانے چاہئیں،اس سے نہ صرف آب وہوا خوشگوار ہوجائے گی بلکہ یہ معیشت کےلئے سودمند ہوگا ۔ ریسکیو 1122کا منصوبہ ملک کے دیگر صوبوں میں شروع کرنا چاہیے ۔ ملین ٹریزپرمزید توجہ دینی چاہیے، جبکہ کلین اینڈ گرین پروگرام ہر شہری اپنے لئے فرض سمجھیں تو ملک سرسبز وشاداب اورصاف ستھرا ہوجائے گا اور بیماریاں کم ہوجائیں گی۔لوگوں کی زیست میں نمایاں تبدیلیاں آجائیں گی۔(ب)آفات سے قبل پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے ہر آفات سے قبل تیاری اور پلاننگ ہونی چاہیے ۔ آفات کے دوران انفارمیشن شیئرنگ کا نظام ہونا چاہیے۔اس کےلئے حکومت ، میڈیا اور این جی اوز کے درمیان ربط ہونا چاہیے۔ (ج) آفات کےلئے لوگوں کو ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تیار کریں تاکہ لوگ امداد کی انتظار کیے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیوکرسکیں۔ میڈیا اور این جی اوزاس سلسلے میں حکومت کی معاونت کریں۔ این جی اوز لوگوں کی تربیت کا اہتمام کریں۔علماءکرام ،اساتذہ کرام اور صحافی اس مقصد کےلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ (د)مقامی انتظامیہ لوگوں کو دریاﺅں اور ندی نالوں کے قریب مکانات ، سرکاری عمارتیں اور ہوٹل وغیرہ تعمیر کرنے کی قطعی اجازت نہ دیں، اس سے آفات میں جانی ومالی نقصان کم ہوگا۔ (ر) قدرتی آفات کے دوران سیاست سے پرہیز کرنا چاہیے۔آفات میں جلسے اور جلسوں کا انعقاد کسی صورت قابل تعریف فعل نہیں ہے ۔ آفات کے دوران تمام تر سرگرمیاں ترک کرکے ریسکیوکی کوشش کرنی چاہیے ۔ (س) افواج پاکستان کا ہر آفت میں نمایاں کردار رہا ہے۔ حالیہ آفت میں افواج پاکستان کا رول قابل تحسین وقابل فخر ہے۔ اسی طرح جی بی ، کے پی کے، پنجاب ،سندھ اور بلوچستان پولیس کا مثبت کردار کسی سے پوشید ہ نہیں ہے۔میانوالی پولیس نے سیلاب کے ایام میں لوگوں کی معاونت کی ، ڈی پی او میانوالی محمد نوید کی قیادت میں پولیس دن رات الرٹ رہی اور لوگوں کی مدد کی۔ضلع میانوالی سے دریا سندھ میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے، اس مقام پر سیلاب کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں ،اس لئے ڈپٹی کمشنر میانوالی محمد عمیر نے تمام اداروں کو متحرک رکھا۔(ش)قدرتی آفات کے دوران سوشل میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے۔ قدرتی آفات کے دوران من گھڑت اور غیر مصدقہ خبروں کو شیئر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔کسی حالات میں بھی غلط خبریں نہیں پھیلانی چاہیےں،جھوٹی خبروں سے ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے لہٰذا سوشل میڈیا پر ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اٹھارہ سال سے کم عمرافراد کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی ہونی چاہیے ، علاوہ ازیں سوشل میڈیا کے اکاﺅنٹ کےلئے تین شرائط لازمی ہونی چاہیے ،(1 ) میڈیکل رپورٹ تاکہ وہ شخص ذہنی لحاظ سے تندرست ہو،سالانہ بنیادپر میڈیکل رپورٹ کی تجدیدہونی چاہیے ، (2) اس کےلئے قومی شناختی کارڈکا ہونا لازمی قرار دیاجائے، قومی شناختی کارڈ پر بےک وقت ایک آئی ڈی بنانے کی اجازت ہو۔ 3)فیس سکین پاس ورڈ اور ڈی پی پر اپنی تصویرلازمی قرار دیا جائے تاکہ جعلی اکاﺅنٹ کا راستہ بند کیا جاسکے۔بحرحال ہر حال میں سب کو ایک ذمہ دار شہری کا کرار ادا کرنا چاہیے۔اس سے کافی سارے مسائل سے بچا جاسکتا ہے ۔ (ص) ناگہانی آفات کے دوران ہر شخص کو چند ہ یاسیلاب زدگان یا آفات کےلئے فنڈز اکھٹا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ انتظامیہ کو ایسے افراد پر نظریں رکھنی چاہیے ۔ (ض)آفات کے دوران مقامی سطح پر انتظامیہ اور لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ریسیکو، شیلٹر، خوردونوش،طبعی امداد کے انتظامات کرنے چاہییں،اگر کسی گاﺅں میں مسئلہ ہوتو قریبی دوسرے دیہاتوں کے افراد کو مدد کےلئے آگے بڑھنا چاہیے۔ الحمد اللہ ہمارے وسیب میں ایسا ہی ہورہا ہے اور یہ ہمارے معاشرے اورملک کی زینت ہے۔ بحرحال آفات کےلئے ہر سطح پر منصوبہ بندی اور پلاننگ ناگزیر ہے تاکہ جانی ومالی نقصان سے بچا جاسکے یا کم کیا جاسکے ۔اللہ پاک سب کو آفات سے محفوظ و مامون رکھے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri